Tuesday, 22 May 2018

رخصت ہوا تو آنکھ ملا کر نہیں گیا


رخصت ہوا تو آنکھ ملا کر نہیں گیا
وہ کیوں گیا ہے یہ بھی بتا کر نہیں گیا


وہ یوں گیا کہ بادِ صبا یاد آگئی
احساس تک بھی ہم کو دلا کر نہیں گیا


یوں لگ رہا ہے جیسے ابھی لوٹ آئے گا
جاتے ہوئے چراغ ،،،،، بجھا کر نہیں گیا


بس اک لکیر کھینچ گیا درمیان میں
دیوار راستے میں بنا کر نہیں گیا


گھر میں ہے آج تک وہی خوشبو بسی ہوئی
لگتا ہے یوں کہ جیسے ،،،،، وہ آکر نہیں گیا


تب تک تو پھول جیسی ہی تازہ تھی اس کی یاد
جب تک وہ پتیوں کو جدا کر نہیں گیا


 یہ گلہ ہی رہا اس کی ذات سے


جاتے ہوئے ،،، وہ کوئی گلہ کر نہیں گیا

No comments:

Post a Comment