ادب کی حد میں ہوں میں بے ادب نہیں ہوتا
تمہارا تذکرہ، اب روز و شب نہیں ہوتا
کبھی کبھی تو چھلک پڑتی ہیں یونہی آنکھیں
اداس ہونے کا، کوئی سبب نہیں ہوتا
کئی امیروں کی محرومیاں نہ پوچھ کہ بس
غریب ہونے کا احساس اب نہیں ہوتا
میں والدین کو یہ بات کیسے سمجھاؤں
محبتوں میں حسب و نسب نہیں ہوتا
وہاں کے لوگ بڑے دلفریب ہوتے ہیں
مِرا بہکنا بھی کوئی عجب نہیں ہوتا
میں اس زمین کا دِیدار کرنا چاہتا ہوں
جہاں کبھی بھی خدا کا غضب نہیں ہوتا!
No comments:
Post a Comment