Tuesday, 22 May 2018

گلی میں درد کے پرزے تلاش کرتی تھی



گلی میں درد کے پرزے تلاش کرتی تھی
میرے خطوط کے ٹکڑے تلاش کرتی تھی

بھولے گا کون اذیت پسندیاں اس کی
خوشی کے ڈھیر میں صدمے تلاش کرتی تھی

عجب ھجر پرستی تھی اس کی فطرت میں
شجر کے ٹوٹے پتے تلاش کرتی تھی

قیام کرتی تھی وہ مجھ میں صوفیوں کی طرح
اداس روح کے گوشے تلاش کرتی تھی

تمام رات وہ پردے ھٹا کے چاند کے ساتھ
جو کھو گئے تھے وہ لمحے تلاش کرتی تھی

کچھ اس لیےبھی میرےگھرسےاس کو تھی وحشت
یہاں بھی اپنے ہی پیارے تلاش کرتی تھی

گھما پھرا کے جدائی کی بات کرتی تھی
ھمیشہ ہجر کے حربے تلاش کرتی تھی

تمام رات وہ زخما کے اپنی پوروں کو
میرے وجود کے ریزے تلاش کرتی تھی

دعائیں کرتی تھی اجڑے ھوئے مزاروں پر
بڑی عجیب سحر تلاش کرتی تھی

مجھے تو اب بتایا ھے بادلوں نے وصی “
وہ لوٹ آنے کے راستے تلاش کرتی تھی




No comments:

Post a Comment