گلی میں درد کے پرزے تلاش کرتی تھی
میرے خطوط کے ٹکڑے تلاش کرتی تھی
بھولے گا کون اذیت پسندیاں اس کی
خوشی کے ڈھیر میں صدمے تلاش کرتی تھی
عجب ھجر پرستی تھی اس کی فطرت میں
شجر کے ٹوٹے پتے تلاش کرتی تھی
قیام کرتی تھی وہ مجھ میں صوفیوں کی طرح
اداس روح کے گوشے تلاش کرتی تھی
تمام رات وہ پردے ھٹا کے چاند کے ساتھ
جو کھو گئے تھے وہ لمحے تلاش کرتی تھی
کچھ اس لیےبھی میرےگھرسےاس کو تھی وحشت
یہاں بھی اپنے ہی پیارے تلاش کرتی تھی
گھما پھرا کے جدائی کی بات کرتی تھی
ھمیشہ ہجر کے حربے تلاش کرتی تھی
تمام رات وہ زخما کے اپنی پوروں کو
میرے وجود کے ریزے تلاش کرتی تھی
دعائیں کرتی تھی اجڑے ھوئے مزاروں پر
بڑی عجیب سحر تلاش کرتی تھی
مجھے تو اب بتایا ھے بادلوں نے وصی “
وہ لوٹ آنے کے راستے تلاش کرتی تھی
No comments:
Post a Comment