روٹھا تو شہر خواب کو غارت بھی کرگیا
پھرمسکرا کے تازھ شرارت بھی کرگیا
منہ زور آندھیوں کی ہتھیلی پہ اک چراغ
پیدا مرے لہو میں حرارت بھی کرگیا
دل کا نگر اجاڑنے والا ہنر شناس
تعمیر حوصلوں کی عمارت بھی کر گیا
بوسیدہ بادبان کا ٹکڑا ہوا کے ساتھ
طوفاں میں کشتیون کی سفارت بھی کر گیا
محسن یہ دل کہ اس سے بچھڑتانہ تھاکبھی
آج اس کو بھو لنے کی جسارت بھی کرگیا
No comments:
Post a Comment