Wednesday 19 December 2018

نہ جانے کب میری دنیا میں مسکرائے گا



نہ جانے کب میری دنیا میں مسکرائے گا
وہ ایک شخص جو خوابوں میں بھی خفا سا لگے


Toot jaiy na Bharam hont hilaow kese




ٹوٹ جائے نہ بھرم ہونٹ ہلاؤں کیسے
حال جیسا بھی ہے لوگوں کو سناؤں کیسے


خشک آنکھوں سے بھی اشکوں کی مہک آتی ہے
میں تیرے غم کو زمانے سے چھپاؤں کیسے


تیری صورت ہی میری آنکھ کا سرمایہ ہے
تیرے چہرے سے نگاہوں کو ہٹاؤں کیسے


تو ہی بتلا میری یادوں کو بھلانے والے
میں تیری یاد کو اس دل سے بھلاؤں کیسے


پھول ہوتا تو تیرے در پہ سجا بھی رہتا
زخم لے کر تیری دہلیز پہ آؤں کیسے


آئینہ ماند پڑے سانس بھی لینے سے عدیم
اتنا نازک ہو تعلق تو نبھاؤں کیسے


وہ رلاتا ہے رلائے مجھے جی بھر کے عدیم
میری آنکھیں ہے وہ میں اس کو رلاؤں کیسے



main sun k oski sab batein faqat itna he kehta hoon



میں سن کے اسکی سب باتیں فقط اتنا ہی کہتا ہوں
خفا ہونا، منا لینا، یہ صدیوں سے روایت ہے
محبت کی علامت ہے
گلے شکوے کرو مجھ سے، تمہیں یار اجازت ہے
مگر اک بات میری بھی زرا تم یار رکھ لینا
کبی ایسا بھی ہوتا ہے،
ہوا‏ئیں رخ بدلتی ہیں
خزا‏‏ئیں لوٹ آتی ہیں
خطائیں ہو ہی جاتی ہیں
خفا ہونا بھی ممکن ہے
خطا ہونا بھی ممکن ہے
ہمیشہ یاد رکھنا تم، تعلق روٹھ جانے سے
کبی ٹوٹا نہیں کرتے



Thursday 13 December 2018

wo batein Teri, wo fasane Tere, urdu poetry



وہ باتیں تری وہ فسانے ترے
شگفتہ شگفتہ بہانے ترے


بس ایک داغِ سجدہ مری کائنات
جبینیں تری ، آستانے ترے


بس ایک زخمِ نظارہ، حصہ مرا
بہاریں تری، آشیانے ترے


فقیروں کی جھولی نہ ہوگی تہی
ہیں بھر پور جب تک خزانے ترے


فقیروں کا جمگھٹ گھڑی دو گھڑی
شرابیں تری، بادہ خانے ترے


ضمیرِ صدف میں کرن کا مقام
انوکھے انوکھے ٹھکانے ترے


بہار و خزاں کم نگاہوں کے وہم
برے یا بھلے، سب زمانے ترے


عدم بھی ہے تیرا حکایت کدہ
کہاں تک گئے ہیں فسانے ترے



bane koi tumhara kis leye jee, urdu poetry


بنے   کوئی   تُمہارا..............
کس لیے جی؟

یہ چنچل سا اشارہ.............
کس لیے جی؟

اگر ھے تیرگی کا راج ھر سُو
تو پھر روشن ستارہ.............
کس لیے جی؟

وہ کہتا ھے کہ دل پھر سے لگاؤ
خسارے پر خسارہ................
کس لیے جی؟

مری آنکھوں کو جُگنو کہہ رہے ھو؟
مگر یہ استعارہ....................
کس لیے جی؟

کوئی رشتہ نہیں باقی تو بولو
مجھے تم نے پُکارا...................
کس لیے جی؟

بہت سے کام ھیں کرنے کے باقی
محبت پر گزارہ..........................
کس لیے جی؟

بھنور سے دوستی کا کیا سبب ھے؟
کنارے سے کنارہ........................
کس لیے جی؟

مری اُلجھی رہے لٹ..................
تم کو کیا ھے?
اِسے آکے سنوارا.........................
کس لیے جی؟

کہاں ھے جیتنے کا شوق بولو؟
بتا دو دل کو ہارا.......................
کس لیے جی؟

ملیں گے جب کبھی موقع ملا تو
ابھی سے اِستخارہ.....................
کس لیے جی؟

فاخرہ بتول


Sunday 9 December 2018

bandh lein hath pe, seene pe saja lein tum ko




باندھ لیں ہاتھ پہ، سینے پہ سجالیں تم کو
جی میں آتا ہے کہ تعویز بنالیں تم کو،،،!!!   


پھر تمھیں روز سنواریں تمھیں بڑھتا دیکھیں
کیوں نہ آنگن میں چنبیلی سا لگا لیں تم کو،،،!!!


جیسے بالوں میں کوئی پھول چُنا کرتا ہے
گھر کے گلدان میں پھولوں سا سجالیں تم کو!!



اس قدر ٹوٹ کے تم پر ہمیں پیار آتا ہے
اپنی بانہوں میں بھریں مار ہی ڈالیں تم کو،،،!!!


کبھی خوابوں کی طرح آنکھ کے پردے میں رہو
کبھی خواہش کی طرح دل میں بُلا لیں تم کو،،،!!!


ہے تمھارے لیے کچھ ایسی عقیدت دل میں
اپنے ہاتھوں میں دعاؤں سا اٹھالیں تم کو،،،!!!


جان دینے کی اجازت بھی نہیں دیتے ہو 
ورنہ مر جائیں ابھی مر کے منا لیں تم کو،،،!!!


جس طرح رات کے سینے میں ہے مہتاب کا نور
اپنے تاریخ مکانوں میں سجالیں تم کو،،،!!!


اب تو بس ایک ہی خواہش ہے کسی موڑ پر تم
ہم کو بکھرے ہوئے مل جاؤ سنبھالیں تم کو....!!!


Saturday 8 December 2018

kaba Nahi k sari khudaii ko dakhal ho



کعبہ نہیں، کہ ساری خُدائی کو دخل ہو 
دل میں سِوائے یارکے کسی کا گُزر نہیں




bari dil kash hain meri Ankhein



زمانہ کہتا ہے بڑی دلکش ہیں میری آنکھیں
اُنھیں کیا معلوم میرا یار بسا ہے اِن میں



Teri deed ka dilasa sa de Kar har Shab



تیری دید کا دلاسہ سا دے کر ہر شب 
سلاتا ہوں تڑپتی ہوئی آنکھوں کو اپنی



wo muhabbat ko meri rooh se nachor Kar ly gya



وہ محبت کو میری روح سے نچوڑ کر لے گیا ..!!
چھوڑ گیا مجھے عشق کی گلیوں میں دیوانہ کر کے ..!!


hum to aaghaz e muhabbat mein lut gye. log kehte hain anjam bura hota hai




ہم تو آغاز محبت میں لٹ گئے..
لوگ کہتے ہیں___ انجام برا ہوتا ھے



os ki Yaad ki ye bhi to karamat hai



اس کی یاد کی یہ بھی تو اک کرامت ہے 
ہزار میل پر ہوکر بھی ساتھ ہو جیسے _!



bhool jaon ge ghum e hijr ki talkhi yaksar




بھول  جاؤں گی  غمِ ھجر کی -- تلخی یکسر
صرف  اک بار , گلے  آ کے  لگا  لے  مجھ کو


میں کسی اُجڑی ھوئی شاخ کا ------  ٹوٹا پتا
کوئی   روندے  یا سمیٹے کہ جلا لے مجھ کو


ik Tu k gurezan he Raha mujh se, ik main k Tere naqsh e qadam choom Raha hoon




اِک تُو کہ گُریزاں ہی رہا مجھ سے بہرِ طور
اِک میں کہ تیرے نقشِ قدَم چُوم رہا تھا



tum jo hansti ho to phoolon ki ada lagti ho




تُم جَو ہَنستی ہَو تَو پُھولُوں کی اَدا لَگتی ہَو،
اَور چَلتی ہَو تَو اِک بادِ صَبا لَگتی ہَو،


دَونُوں ہاتُھوں میں چُھپا لَیتی ہَو اَپنا چَہرہ،
مَشرِقی حُور ہَو دُلہَن کی حَیا لَگتی ہَو،


کُچھ نہ کَہنا مَیرے کَندھے پہ جُھکا کَر سَر کَو،
کِتنی مَعصُوم ہَو،تَصوِیرِ وَفا لَگتی ہَو،


بات کَرتی ہَو تَو ساگَر سے کَھنَک جاتے ہیں،
لَہَر کا گِیت ہَو،کَوئل کی صَدا لَگتی ہَو،


کِس طَرف جاؤ گی زُلفُوں کے یہ بادَل لے کَر،
آج مَچلی ہُوئی ساوَن کی گَھٹا لَگتی ہَو،


تُم جِسے دَیکھ لَو،اُسے پِینے کی ضَرُورَت کَیا ہے...؟
زِندگی بَھر جَو رَہے،اَیسا نَشہ لَگتی ہَو،


مَیں نے مَحسُوس کِیا تُم سے یہ   باتَیں کَر کے،
تَم زَمانے میں زَمانے سے جُدا لَگتی ہَو...!


kitne shoaq se chor dia tum ne baat



کتنے شوق سے چھوڑ دیا تم نے بات کرنا
جیسے صدیوں سے تیرے دل پہ بوجھ تھے ہم


hamein shairi ka shaoor kahan, hum to likhte hain faqat andaz tere




ہمیں شاعری کا شعور کہاں 
ہم تو لکھتے ہیں فقط انداز تیرے


hum Dasht k basi hain are shahr k logo




ہم دشت کے باسی ہیں ارے شہر کے لوگو
یہ روح پیاسی ہمیں ورثے میں ملی ہے


دکھ درد سے صدیوں کا تعلق ہے ہمارا
آنکھوں کی اداسی ہمیں ورثے میں ملی ہے


جاں دینا روایت ہے قبیلے کی ہماری
یہ سرخ لباسی ہمیں ورثے میں ملی ہے


جو بات بھی کہتے ہیں اتر جاتی ہے دل میں
تاثیر جدا سی ہمیں ورثے میں ملی ہے


جو ہاتھ بھی تھاما ہے سدا ساتھ رہا ہے
احباب شناسی ہمیں ورثے میں ملی ہے


محسن نقوی 




khud he aa gya tha dil k qareeb , hum hain maray huwy saholat kay



خود ہی وہ آگیا تھا دل کے قریب
ہم ہیں مارے ہوئے سہولت کے  




Muhabbat rooth jaiy to




Muhabbat ruth jaiy to
Osay banho mein ly lena

boht he pas kar k tum
osay jane nahi dena

wo daman churaiy to
osay tum qasam de dena

dil'on k muamle mein to
khatain ho he jati hain

tum un khataon ko
bahana mat banana

muhabbat ruth jaiy to
osay jaldi mana lena


Sunday 2 December 2018

Khuda k waste ye hijrat ka hukm wapas, urdu poetry






Khuda k waste 
ye hijrat ka hukm wapas

Main sara kharch hoa hoon 
ye ghar banate banate




Sunday 25 November 2018

Wednesday 21 November 2018

Kaho wo Dasht kesa hai.. jidhr sb kuch luta aay



کہو وہ دشت کیسا ہے؟
جدھر سب کچھ لٹا آئے
جدھر آنکھیں گنوا آئے
کہا، سیلاب جیسا تھا
بہت چاہا کے بچ نکلیں
مگر سب بہا آئے۔

کہو وہ ہجر کیسا تھا؟
کبھی چھو کر اسے دیکھا
تو تم نے کہا بھلا پایا
کہا، بس آگ جیسا تھا
اسے چھو کر تو اپنی روح یہ تن من جلا آئے۔

کہو، وہ وصل کیسا تھا؟
تمہیں جب چھو لیا، اس نے تو کءا احساس جاگا تھا
کہا، اک راستے جیسا ، جدھر سے بس گزرنا تھا
مکاں لیکن بنا آئے۔

کہو، وہ چاند کیسا تھا؟
فلک سے جو اتر آیا
تمہاری آنکھ میں بسنے
کیا، وہ لواب جیسا تھا
نہءں تعبیر تھی اسکی،
اسے اک شب سلاآئے۔

کہو، وہ عشق کیسا تھا؟
بنا سوچے بنا سمجھے، بنا پرکھےکیا تم نے
کہا، تتلی کے رنگ جیسا
بہت کچا انوکھا سا،
جبھی اس کو بھلا آئے۔

کہو، وہ نام کیسا تھا؟
جسے صحراوُں اور چنچل ہواوُں پر لکھا تم نے،

کہا، بس موسموں جیسا، ناجانے کس طرح ،
کس پل کسی دور میں مٹا آئے۔۔!!!!

Sunday 21 October 2018

ik tarz e taghaful hai so wo unko Mobarek, ik arz e tamanna hai ham wo Karte Rahain gy, urdu poetry






اک طرز تغافل ہے سو وہ ان کو مبارک 
اک عرض تمنا ہے سو ہم کرتے رہیں گے


Saturday 20 October 2018

aj ruthe huwy sajan ko boht Yaad kia, urdu poetry




آج روٹھے ہوئے ساجن کو بہت یاد کیا
اپنے اجڑے ہوئے گلشن کو بہت یاد کیا

جب کبھی گردشِ تقدیر نے گھیرا ہے ہمیں
گیسوئے یار کی الجھن کو بہت یاد کیا

شمع کی جوت پہ جلتے ہوئے پروانوں نے
اک ترے شعلہ دامن کو بہت یاد کیا

جس کے ماتھے پہ نئی صبح کا جھومر ہو گا
ہم نے اس وقت کی دلہن کو بہت یاد کیا

آج ٹوٹے ہوئے سپنوں کی بہت یاد آئی ہے
آج بیتے ہوئے ساون کو بہت یاد کیا

ہم سرِ طور بھی مایوس تجلی ہی رہے
اس درِ یار کی چلمن کو بہت یاد کیا

مطمئن ہو ہی گئے دام و قفس میں ساغر
ہم اسیروں نے نشیمن کو بہت یاد کیا

ساغر صدیقی

Sunday 14 October 2018

Urdu shairi or shaheed e karbala




اردو شاعری اور شہیدِ کربلا


دشمن جو ہو حسین علیہ السلام کا
آتشؔ نہ کم سمجھ اسے ابنِ زیاد سے


(آتش)

جو کربلا میں شاہِ شہیداں سے پھِر گئے
کعبہ سے منحرف ہوئے قرآں سے پھِر گئے


(امیر مینائی)

ڈوب کر پار اتر گیا اسلام
آپ کیا جانیں کربلا کیا ہے


(یگانہ)

حقیقتِ ابدی ہے مقامِ شبیری
بدلتے رہتے ہیں اندازِ کوفی و شامی


 (اقبال)

دشت میں خونِ حسین ابن علی بہہ جائے
بیعتِ حاکمِ کفار نہ ہونے پائے


(مصطفی زیدی)

وہی پیاس ہے وہی دشت ہے وہی گھرانا ہے
مشکیزے سے تیر کا رشتہ بہت پرانا ہے


(افتخار عارف)

خوش آئے تجھے شہرِ منافق کی امیری
ہم لوگوں کو سچ کہنے کی عادت بھی بہت ہے


(پروین شاکر)

تو نے صداقتوں کا نہ سودا کیا حسینؑ
باطل کے دل میں رہ گئی حسرت خرید کی


(اقبال ساجد)

صبر کی ڈھال تیغ کو کرتی ہے کُند کس طرح
کوئی اگر یہ سن سکے کہتی ہے کربلا کہ یوں


(شکیل جاذب)

حسین دیکھ رہے تھے ذرا بجھا کے چراغ
کہیں بجھے تو نہیں دشت میں وفا کے چراغ


(نصرت مسعود)

انیس عمر بسر کر دو خاکساری میں
کہے نہ کوئی غلامِ ابوتراب نہیں


(انیس)

اک فقر ہے شبیری اس فقر میں ہے مِیری
میراثِ مسلمانی سرمایۂ شبیری


(اقبال)

ساحل تمام گردِ ندامت سے اٹ گیا
دریا سے کوئی شخص تو پیاسا پلٹ گیا


(شکیب جلالی)

حاتمؔ تمام عمر توُ رونے سے منہ نہ پھیر
ماتم ہے دوستوں کو شہ کربلا کا فرض


(حاتم)

تمھارے ساتھ میاں مصحفیؔ ہیں جوق کے جوق
مگر تم آئے ہو مجلس سے مرثیہ پڑھ کر


(مصحفی)

گلشنِ دہر بھی ہے کوئی سرائے ماتم
شبنم اس باغ میں جب آئے تو گریاں آئے

غمِ شبیر سے ہو سینہ یہاں تک لبریز
کہ رہیں خونِ جگر سے مری آنکھیں رنگیں


(غالب)

سینہ کوبی سے زمیں ساری ہلا کے اُٹھے
کیا علم دھوم سے تیرے شہدا کے اٹھے


(مومن)

عمر گزری ہے اسی دشت کی سیاحی میں
پانچویں پشت ہے شبیر کی مداحی میں


(انیس)

اسیرانِ بلا نے آہ کچھ اس درد سے کھینچی
نگہباں چیخ اٹھے ہل گئی دیوار زنداں کی


(حسرت)

دل میں ہے مجھ بے عمل کے داغِ عشقِ اہلِ بیتؑ
ڈھونڈتا پھرتا ہے ظلِ دامنِ حیدر مجھے


رونے والا ہوں شہیدِ کربلا کے غم میں ، میں
کیا دُرِ مقصد نہ دیں گے ساقیٔ کوثر مجھے


(اقبال)

اے ماتمیٔ پورِ مہِ شامِ غریباں
کچھ چارۂ بے چارگیٔ دل زدگاں ہو


(خالد احمد)

وراثتوں میں تری، تیرا خانوادہ بھی تھا
میں جان سکتا ہوں اے شافعِ امم ترا غم


اچھال دیتا جو پہلے فراتِ وقت ہمیں
سنبھالتے تری مشکیں ، ترا علم، ترا غم


(احسان اکبر)

گلی گلی سے صدائے علی علی آئے
بہ فیضِ ماتمیاں شورِ کوُ بہ کوُ کو سلام


(سید سلمان رضوی)

بیٹیاں ہوں درِ زہراؑ کی کنیزی کے لیے
اور ہم ماتمِ شہ کے لیے بیٹے مانگیں


(انجم خلیق)

دو چھلکتی ہوئی آنکھوں کے کٹورے لے کر
آج پیاسوں کی طرف ہاتھ بڑھا دیتے ہیں


(ثاقب اکبر)

میرے سینے سے ذرا کان لگا کر دیکھو
سانس چلتی ہے کہ زنجیر زنی ہوتی ہے


(عباس تابش)

سانس لیتا ہوں تو روتا ہے کوئی سینے میں
دل دھڑکتا ہے تو ماتم کی صدا آتی ہے


(فرحت عباس شاہ)

کلام کرتا ہے روشنی کا سفیر بن کر جو میرا آنسو
جلال ہے اس میں تیرے غم کا جمال کی آب و تاب تُو ہے


(شہاب صفدر)

حق و باطل کی ہے پیکار ہمیشہ جاری
جو نہ باطل سے ڈریں ہیں وہی شیعانِ حسین


(محمد علی جوہر)

جو ظلم پہ لعنت نہ کرے آپ لعیں ہے
جو جبر کا منکر نہیں وہ منکرِ دیں ہے


(فیض)

دلوں کو غسلِ طہارت کے واسطے جا کر
کہیں سے خونِ شہیدانِ نینوا لائو


(مصطفی زیدی)

حسین ابنِ علی کربلا کو جاتے ہیں
مگر یہ لوگ ابھی تک گھروں کے اندر ہیں


(شہریار)

کتنے یزید و شمر ہیں کوثر کی گھات میں
پانی حسین کو نہیں ملتا فرات کا


(صبا اکبر آبادی)

چاہتا یہ ہوں کہ دنیا ظلم کو پہچان جائے
خواہ اس کرب و بلا کے معرکے میں جان جائے


(منظر حنفی)

فراتِ وقتِ رواں ! دیکھ سوئے مقتل دیکھ
جو سر بلند ہے اب بھی وہ سر حسینؑ کا ہے


(افتخار عارف)

رنگین رہا دشت شہیدوں کے لہو سے
بہتا ہی رہا خون کا دریا، لبِ دریا


(سید نصیر الدین نصیر)

سلام ان پہ جنھیں دائمی حیات ملی
سلام ان پہ ہوئی موت جن سے شرمندہ


(حمیدہ شاہین)

تشنہ لب مر گئے ترے عاشق
نہ ملی ایک بوند پانی کی


ہم کشتۂ عشق ہیں ہمارا
میدان کی خاک ہی کفن ہے


(میر)

ستمگرو! نہ ستم کرتے کرتے تھک جانا
ہمارے صبر کی حد جنگِ کربلا تک ہے


(دبیر سیتا پوری)

کیا کیا گہر لٹے سرِ میدانِ کربلا
ہے یاد آسماں کو سخاوت حسینؑ کی


(خورشید رضوی)

خیمے نہ کوئی میرے مسافر کے جلائے
زخمی تھا بہت پائوں ، مسافت بھی بہت تھی


(پروین شاکر)

سلام ان پہ تہہِ تیغ بھی جنھوں نے کہا
جو تیرا حکم، جو تیری رضا، جو تو چاہے


(مجید امجد)

کیسی نجات، مل نہ سکے گی پناہ تک
اب تیر آ رہے ہیں مری خیمہ گاہ تک


(رئیس امروہوی)

اللہ رے تشنگانِ شہادت کا مرتبہ
اے بحرؔ آب خون ہوا ہے فرات میں


(بحر لکھنوی)

ہوائے کوفۂ نا مہرباں کو حیرت ہے
یہ لوگ خیمۂ صبر و رضا میں زندہ ہیں


(عرفان صدیقی)

نکھارتا رہے گا نفسِ مطمئن
پکارتا رہے گا آدمی حسینؑ


(سلیم کوثر)

اعظمؔ اس شاہ پر کروڑوں سلام
جس کا غم ہے نجات کا ساماں


(اعظم چشتی)

حق کے لیے جاں دینے کی جو رسم چلی ہے
اس رسم کا بانی ہی حسینؑ ابنِ علیؑ ہے


(سعید اقبال سعدی)

کچھ ایسا معتبر ہے حوالہ حسین کا
بخشا ہوا ہے چاہنے والا حسین کا


(سرور حسین نقشبندی)

اردو کے شاعروں نے غزل، منقبت، سلام، مثنوی، نظم، رباعیات اور قطعات میں کربلا اور امامِ مظلومؑ کے دوام و عروج کو موضوع بنایا ہے۔
 امام کو اور ان کی قربانیوں کو دنیا بھر میں قدر کی نگاہ سے مقبولیت حاصل ہے 
اور ان کو ایسا دوام ہے
 جس کی کوئی دوسری مثال نہیں۔
~~~

خود نویدِ زندگی لائی قضا میرے لیے
شمع کشتہ ہوں فنا میں ہے بقا میرے لیے


(انیس)

جہاں پہنچے شہیدانِ وفا کے خوں کی بو آئی
قدم جس جس جگہ رکھے زمینِ کربلا پائی


(شاد عظیم آبادی)

غریب و سادہ و رنگیں ہے داستانِ حرم
نہایت اس کی حسینؑ ابتدا ہے اسماعیلؑ


(اقبال)

قتلِ حسین اصل میں مرگِ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد


(محمد علی جوہر)

دیکھو تو سلسلہ ادبِ مشرقین کا
دنیا کی ہر زبان پہ قبضہ حسین کا


(قیصر بارہوی)

تیغِ جفا کے سامنے آپ ہی ڈھال ہوگئے
ایسی مثال پیش کی، آپ مثال ہوگئے


(ظفر اقبال)

سپاہِ شام کے نیزے پہ آفتاب کا سر
کس اہتمام سے پروردگارِ شب نکلا


(افتخار عارف)

کیا صرف مسلمان کے پیارے ہیں حسینؑ
چرخِ نوعِ بشر کے تارے ہیں حسینؑ


انسان کو بیدار تو ہو لینے دو
ہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسینؑ


(جوش)

یہ شہادت ہے اس انسان کی اب حشر تلک
آسمانوں سے صدا آئے گی انساں انساں


(احمد ندیم قاسمی)

جُز حسین ابنِ علی مرد نہ نکلا کوئی
جمع ہوتی رہی دنیا سرِ مقتل کیا کیا


(شہرت بخاری)

یا رب دکھا دے ایک جھلک اس شہید کی
جس نے لہو پہن کے محرم میں عید کی


(اقبال ساجد)

نکل کے جبر کے زنداں سے جب چلی تاریخ
نقاب اٹھاتی گئی قاتلوں کے چہروں کا


زندگی کے دیوانو، سوئے کربلا دیکھو
عشق کس سلیقے سے زندگی میں ڈھلتا ہے


سلام خانۂ زہراؑ ترے چراغوں پر
بجھے ہیں شمعِ رسالت کی روشنی کے لیے


(امید فاضلی)

جو سر اٹھے سرِ نوکِ سناں علم ہو کر
کس اوج ِ ہست پہ پہنچے وہ چند جستوں میں


(جلیل عالی)

تُو نے وہ کام کیا جس کی نہیں کوئی نظیر
فاتحِ کرب و بلا تجھ کو زمانوں کا سلام


سبھی زمانوں میں اس کی اذان بولتی ہے
جہاں جہاں ہے صداقت وہاں وہاں ہے حسینؑ


(ارشد محمود ناشاد)

یزید تُو نے تو کچھ دیر زندگانی کی
مرے حسینؑ نے صدیوں پہ حکمرانی کی


(اختر رضا سلیمی)

اگر طالع کرے یاری تو مریے کربلا جا کر
عبیر اپنے کفن کی خاک ہو اُس آستانے کی


(میر)

دعائے آتشِ خستہ یہی ہے روزِ محشر کو
یہ مشتِ خاک ہوئے کربلا کی خاک سے پیدا


(آتش)

لکھوں جو میں کوئی مضمونِ ظلمِ چرخِ بریں
تو کربلا کی زمیں ہو مری غزل کی زمیں


(ذوق)

میں ڈھونڈوں ظفرؔ اور کا کیوں ظلِ حمایت
کافی ہے مجھے حیدر و شبیر کا سایہ


(بہادر شاہ ظفر)

امیرؔ اپنا دلِ پُر داغ سوئے کربلا لے چل
یہ گلدستہ ہے نذرِ روضۂ شبیر کے قابل


(امیر مینائی)

داستاں حسنِ حقیقت کی تھی رنگیں لیکن
اتنی رنگیں نہ تھی خونِ شہدا سے پہلے


سینچا ہوا لہو سے اک گلشنِ وفا ہے
عشقِ غیور تیرا آئینہ کربلا ہے


(جعفر علی خاں اثر)

اے کربلا کی خاک اِس احسان کو نہ بھول
تڑپی ہے تجھ پہ لاشِ جگر گوشۂ بتولؑ


اسلام کے لہو سے تری پیاس بجھ گئی
سیراب کر گیا تجھے خونِ رگِ رسول


(ظفر علی خان)

لے جائیں گے جنت میں منیرؔ اس کو پیمبرؐ
جو عاشقِ صادق ہے حسینؑ اور حسن ؑکا


(منیر شکوہ آبادی)

بلا کی ظلمتیں ہیں کربلا کی روشنی ہے
حسینؑ تیرے لہو میں خدا کی روشنی ہے


(علی اکبر عباس)

پہروں کی تشنگی پہ بھی ثابت قدم رہوں
دشتِ بلا میں روح مجھے کربلائی دے


(پروین شاکر)

کربلا کچھ نہیں ہے جُز اک نام
نام میں روشنی حسینؑ سے ہے


(یاسمین حمید)

خاک میں شامل ہوئی خونِ ابو طالب کی باس
اور اس کا نام پھر خاکِ شفا رکھا گیا


(انجم خلیق)

یزیدِ عصر نئی کربلا کے درپے ہے
جبینِ وقت پہ شبیر لکھ دیا جائے


(ثاقب اکبر)

رکھتی ہے پاس خلقِ خدا خاکِ کربلا
کیونکہ ہے ہر مرض کی دوا خاکِ کربلا


(اسد رضوی)

عظمتِ امام حسینؑ کے حوالے سے بھی
 شعرا نے اپنے قلم کو جلائے تخیل بخشی۔

 یقینا امام حسینؑ وہ فرزندِ رسولؐ ہیں
 جن کے بارے میں خود رسول اللہ نے فرمایا
 کہ حسینؑ مجھ سے ہے اور میں حسینؑ سے ہوں۔ 

شعرا نے ہر دور میں
 امام کی ضرورت کو ناگزیر قرار دیا۔ 
محشر میں ہر کسی کے
 اپنے امام کے ساتھ حاضر ہونے کے
 اسلامی حکم کو مدِ نظر رکھتے ہوئے
 شعرائے اردو نے عظمت و فضیلتِ
 امام کے شعور کو بھرپور انداز سے اجاگر کیا۔

~~~

حاجت امام کی بھی ہے ناسخؔ اِسی طرح
دنیا میں جس طرح ہے پیمبر کی احتیاج


فکر کر یعنی تو ناسخؔ کا نہ غم کھا واعظا
شافع اِس کا بادشاہِ کربلا ہو جائے گا


(ناسخ)

پھر کوئی حسینؑ آئے گا اس دشتِ ستم میں
پرچم کسی زینب کی ردا ہو کے رہے گی


(شہرت بخاری)

خوابِ جمالِ عشق کی تعبیر ہے حسینؑ
شامِ ملالِ عشق کی تصویر ہے حسینؑ


(منیر نیازی)

اک قدم کربلا سے جنت ہے
خلد کا راستا حسینؑ کا غم


(جان کاشمیری)

یہ بادشاہتِ دنیا تو آنی جانی ہے
چلے گا جنتِ فردوس میں نظامِ حسینؑ


(علی یاسر)

چُور تھا زخموں میں اور کہتا تھا حُر
راحت اس تکلیف میں پائی بہت


(حالی)

جب کہیں قصرِ ستم آرا بنا
خون سے سادات کے گارا بنا


(صفی لکھنوی)

جانثاروں نے ترے کر دیے جنگل آباد
خاک اڑتی تھی شہیدانِ وفا سے پہلے


(نجم آفندی)

چہرۂ احمدِ مرسل کو بہ تفصیل پڑھیں
اسی تفصیل میں اکبر کی جوانی پڑھیے


(اختر حسین جعفری)

مقتول کے چہرے پر چمک تھی
تلوار کی آب سے زیادہ


(حسن اکبر کمال)

تیر سہ شعبہ ہے اور مشہور تیر انداز ہے
سامنے یہ کون کم سن عاشقِ جانباز ہے


(عزیز لکھنوی)

حُر نے شہِ مظلوم کا رستہ نہیں روکا
بھٹکا ہوا راہی تھا پتہ پوچھ رہا تھا


(اختر امام رضوی)

مرا حسینؑ ابھی کربلا نہیں پہنچا
میں حُر ہوں اور ابھی لشکرِ یزید میں ہوں


(حسن نثار)

وہ حُر ہو یا حسن رضاؔ سا شاعر کوئی
آئے اِدھر اک بار تو پھر وہ اُدھر نہیں رہتا


(حسن عباس رضا)

اسد ہے صاحبِ نہج البلاغہ کی بیٹی
علی کا لہجہ، وہ دربارِ شام، اور وہ کلام


(اختر عثمان)

کوئی بھولے گا تڑپ کیسے علی اکبر کی
سب کے سینوں میں وہ برچھی کی چبھن زندہ ہے


(خرم خلیق)

زینبؑ کی ردا میں ہیں بھرے ریت کے منظر
رکھنا مرے اشکوں کا بھرم شامِ غریباں


(نعمان منظور)

اصغر تیری پیاس گلے میں چبھتی ہے
سو میں سب روداد سنائوں آنکھوں سے


(سعید دوشی)

ہر نفس پر ہے ترے نقشِ یقیں کا پرتو
چاہے احساس کا منظر کوئی سارا دیکھے


(جنید آزر)

فوجِ یزید چھوڑ کے آیا حسینؑ تک
حُر آج اپنے اصلی ٹھکانے پہ آ گیا


(طالب حسین طالب)

راہِ حق میں وہ تری جان کی بازی غازی
ہو مبارک یہ تجھے عمر درازی غازی


جب کبھی بھی کیا جائے گا کہیں ذکرِ وفا
چار جانب سے صدا آئے گی غازی غازی


(علی یاسر)

گر نہ ہوتا سرخ رو اشکِ غمِ شبیر سے
حشر میں کس منہ سے ناسخؔ میں شفاعت مانگتا


گرچہ ہوں ہند میں لیکن مجھے ناسخؔ ہر دم
روضۂ حیدرِ کرار نظر آتا ہے


(ناسخ)

غمِ حسینؑ میں اٹھے گا سرخ رُو، اے داغؔ
یہ بوجھ تو نے اٹھایا علی علی کرکے


(داغ)

سروں کے پھول سرِ نوکِ نیزہ ہنستے رہے
یہ فصل سوکھی ہوئی ٹہنیوں پہ پھلتی رہی


(عرفان صدیقی)

آخرت میں مری بخشش کی ضمانت ہوں گے
یہی آنسو جو مری آنکھ میں آئے ہوئے ہیں


(علی رضا)

میں آیا بابِ جناں پر تو یہ صدا آئی
اسے نہ روکو کہ یہ مدح خواں حسینؑ کا ہے


(علی یاسر)

تلواریں کتنی کھائی ہیں سجدے میں اس طرح
فریادی ہوں گے مَل کے لہو کو جبیں سے ہم


بارِ سجدہ ادا کیا تہہِ تیغ
کب سے یہ بوجھ مرے سر پر تھا


(میر)

اسلام کے دامن میں بس اس کے سوا کیا ہے
اک ضربِ ید اللہی اک سجدۂ شبیری


(وقار انبالوی)

وہ ایک سجدہ جسے تُو گراں سمجھتا ہے
ہزار سجدے سے دیتا ہے آدمی کو نجات


(اقبال)

رکھو سجدے میں سر اور بھول جائو
کہ وقتِ عصر ہے اور کربلا ہے


(عبید اللہ علیم)

ملی نہ جن کی جبیں کو پئے سجود جگہ
انہی کے پاک لہو سے ہے با وضو مٹی


(محسن نقوی)

یہ بچھتی جا رہی ہے ارضِ مقتل کس کے قدموں میں
ادا کس نے کیا یہ زیرِ خنجر عصر کا سجدہ


(نصرت زیدی)

نازِ بشریت ہے ترا سجدۂ آخر
رُخ پھیر دیا جس نے زمانے کی ہوا کا


(حفیظ تائب)

جو وارثِ چمن ہو بچاتا ہے وہ چمن
اسلام بن گیا تھا وراثت امامؑ کی


(علی یاسر)

          یزید نے امام حسینؑ سے بیعت کا سوال کیا تھا
 لیکن کبھی حق بھی باطل کے سامنے جھکتا ہے؟

 تاریخ گواہ ہے کہ حق پرست بیعتِ باطل کے بجائے
 موت کا انتخاب کرتے ہیں۔
انکارِبیعت کو بھی اردو شاعری میں
 ایک عظیم تلازمۂ صداقت کی حیثیت حاصل ہے۔
~~~

خطیبِ شہر کا مذہب ہے بیعتِ سلطاں
ترے لہو کو کریں گے سلام ہم جیسے


(فراز)

سوالِ بیعتِ شمشیر پر جواز بہت
مگر جواب وہی معتبر حسینؑ کا ہے


(افتخار عارف)

کسی سے اب کوئی بیعت طلب نہیں کرتا
کہ اہلِ تخت کے ذہنوں میں ڈر حسین کا ہے


(گلزار بخاری)

بیعت کا ہاتھ دوں گا نہ ہر گز یزید کو
تیری گواہی دینا ہے تیرے شہید کو


(ثاقب اکبر)

یونہی تو کوئی ترکِ سکونت نہیں کرتا
ہجرت وہی کرتا ہے جو بیعت نہیں کرتا


(عباس تابشؔ)

          واقعۂ کربلا کا اثر مسلمانوں کے ساتھ ساتھ
 غیر مسلموں پر بھی ہوا۔ 
امامؑ کی شخصیت کو سبھی نے سلام پیش کیا۔
 غیر مسلم دانش وروں اور شاعروں نے
 اپنے اپنے انداز میں امام حسینؑ کو خراجِ تحسین پیش کیا
 اور ان کی قربانی کو تاریخ کی اہم ترین منزل قرار دیا۔
 غیر مسلم شعرا میں ہندو اور سکھ شعرا نے
 بطورِ خاص ایسے ایسے مضامین پیش کیے
 جو بارگاہِ امام میں مقبول و منظور محسوس ہوتے ہیں۔
 ان غیر مسلم شاعروں کی تعداد بہت زیادہ ہے
 لیکن کچھ شعراکے یادگار اشعار
 بطور نمونہ پیش خدمت ہیں
 جن سے ان کی ذاتِ امامؑ 
اور کربلا کے فلسفے سے گہری وابستگی کا اندازہ ہوتا ہے۔ 
ان شاعروں نے تخیل و فکر کی
 پرواز سے منفرد موضوعات کو
 واقعۂ کربلا کے آئینے میں بیان کیا۔

~~~


انسانیت حسین ترے دم کے ساتھ ہے
ماتھرؔ بھی اے حسین ترے غم کے ساتھ ہے


مسلمانوں کا منشائے عقیدت اور ہی کچھ ہے
مگر سبطِ نبی سے میری نسبت اور ہی کچھ ہے


پرائے دیس میں اپنوں کی سی خو ڈھونڈ لیتے ہیں
علی والے علی والوں کی خوشبو ڈھونڈ لیتے ہیں


مسلمانوں کی نظروں کو نہ جانے کیا ہوا ماتھر
فضائل میرے مولا کے تو ہندو ڈھونڈ لیتے ہیں


غم ہے مری فطرت میں تو غم کرتا ہوں ماتھرؔ
ہندو ہوں مگر دشمنِ شبیرؑ نہیں ہوں


(منشی دیشو پرشاد ماتھر)

خمارؔ اپنے مسائل کا حل ہے کرب و بلا
غمِ حسینؑ پہ ہم انحصار کرتے ہیں


(ست نام سنگھ خمار)

یہ معجزہ بھی پیاس جہاں کو دکھا گئی
آنکھوں میں آنسوئوں کی سبیلیں لگا گئی


کرب و بلا میں دیکھیے شبیرؑ کی ’’نہیں ‘‘
ہر دور کے یزید کو جڑ ے مٹا گئی


(سورج سنگھ سورج)

ہے حق و صداقت مرا مسلک ساحرؔ
ہندو بھی ہوں شبیر کا شیدائی بھی


(رام پرکاش ساحر)

وہ دل ہو خاک نہ ہو جس میں اہلِ بیت کا غم
وہ پھوٹے آنکھ جو روئی نہ ہو محرم میں


(رائے بہادر بابو اتار دین)

قرآن اور حسین برابر ہیں شان میں
دونوں کا رتبہ ایک ہے دونوں جہان میں


قرآں کلامِ پاک ہے شبیر نور ہے
دونوں جہاں میں دونوں کا یکساں ظہور ہے


(دلو رام کوثری)

رکھتے ہیں جو شبیر سے کاوش پنڈت
ایسے تو مسلمانوں سے ہندو اچھے


(پنڈت ایسری پرشاد دہلوی)

جے سنگھ پناہ مانگے گی مجھ سے نرگ کی آگ
 ہندو تو ہوں مگر ہوں میں شیدا حسینؑ کا


(جے سنگھ )

سلامی کیا کوئی بے کار ہے جی سے گزر جانا
حیاتِ جاوداں ہے شاہ کے ماتم میں مر جانا


نہیں آتا جنہیں راہِ حقیقت سے گزر جانا
حسین ابنِ علی سے سیکھ لیں وہ لوگ مر جانا


(حکیم چھنو مل دہلوی)

حسین ابنِ علی ہیں فرد یکتا
کوئی مظلوم ایسا تھا نہ ہوگا


دیا سر آپ نے راہِ خدا میں
کِیا دینِ نبی کو دین اپنا


ولائے سبطِ پیغمبر ہے نعمت
یہ نعمت ہو عطا ہر اک کو مولا


(سرکش پرشاد)

حسینؑ حوصلۂ انقلاب دیتا  ہے
حسین شمع نہیں آفتاب دیتا ہے


(سنت درشن سنگھ)

گلشنِ صدق و صفا کا لالۂ رنگیں حسین
شمعِ عالم، مشعلِ دنیا، چراغِ دیں حسین


بادۂ ہستی کا ہستی سے تری ہے کیف و کم
اٹھ نہیں سکتا ترے آگے سرِ لوح و قلم


(کنور مہندر سنگھ بیدی)

رہے گا رنج زمانے میں یادگار ترا
وہ کون دل ہے کہ جس میں نہیں مزار ترا


(چکبست)

لیا خیال کا جب تیرے آسرا میں نے
ہوا یقین کہ منزل کو پا لیا میں نے


خدا کرے کہ مجھے خواب میں حسینؑ ملیں
تمام رات اندھیروں میں کی دعا میں نے


(چرن سنگھ چرن)

ہے آج بھی زمانے میں چرچا حسینؑ کا
چلتا ہے ملک ملک میں سِکہ حسینؑ کا


بھارت میں گر وہ آتا تو بھگوان کہتے ہم
ہر ہندو نام پوجا میں جپتا حسین ؑ کا


مذہب کی کوئی بات نہیں دل کی بات ہے
ہر حق پرست دل سے ہے شیدا حسینؑ کا


مسلم تو پڑھتے آئے ہیں کلمہ رسولؐ کا
ہم ہندوئوں نے پڑھ لیا کلمہ حسینؑ کا


ساحل سے سر پٹختی ہیں پیاسوں کی یاد میں
لے لے کے نام گنگا و جمنا حسینؑ کا


اس میں نہیں کلام کہ ہم بُت پرست ہیں
آنکھوں سے اپنی چومیں گے روضہ حسینؑ کا


(دیوی روپ کماری)

           کائنات کے تمام سمندر روشنائی بن جائیں 
اور تمام درخت قلم بن جائیں
 پھر بھی محمد و آلِ محمد جمال و جلال الٰہی کے
 ایسے مظاہر ہیں
 کہ ان کے مکمل فضائل و مناقب 
رقم نہیں کیے جا سکتے۔

اس مختصر سے مضمون میں چند اشعار کے ذریعے
 اس رجحان کی طرف اشارا کیا گیا ہے
 جو شعرائے اردو کے شعری شعور کا خاصہ رہا ہے۔ 
کربلا اور شاہِ کربلا کا ذکر
 شاعروں کی عقیدت اور صداقت کا عظیم اظہار ہے۔
 ازل سے ابد تک ذکرِ حسین جاری و ساری رہے گا 
اور شاعر اپنے کلام میں
 امامِ مظلومؑ کے ذکر سے تخیل کے
 رنگا رنگ پھول کھلاتے رہیں گے۔
 آخر میں محسن نقوی شہید کے
 چند اشعار پیش کیے جا رہے ہیں۔

~~~

میں سوچتا ہوں کہ حق کس طرح ادا ہوگا
غمِ حسین زیادہ ہے زندگی کم ہے


جن کے سجدوں سے منور ہے جبینِ آفتاب
میرے حرفوں کی عبادت ان خدا والوں کے نام


میری شہ رگ کا لہو، نذرِ شہیدانِ وفا
میرے جذبوں کی عقیدت کربلا والوں کے نام


(محسن نقوی)