Sunday 22 May 2022

ye kab kaha k jee bhar k har kisi ko na dekh

یہ کب کہا ہے کہ جی بھر کے ہر کسی کو نہ دیکھ
سبھی کو دیکھ مگر جاتے اجنبی کو نہ دیکھ

تبھی سے آنکھ کا مرکز زمین ٹھہری ہے
کسی نے مجھ سے کہا تھا کہ اب کسی کو نہ دیکھ

صدائیں دیتا ہے بپھرا چناب راتوں کو
کہ زندگی سے ہے ملنا تو زندگی کو نہ دیکھ

جو تجھ کو شعر سناتا ہوں بات کرتا ہوں
خدارا بات سمجھ شوق شاعری کو نہ دیکھ

راکب مختار

Wednesday 18 May 2022

لڑکھڑاتا ہوں تو وہ رو کے لپٹ جاتا ہے


لڑکھڑاتا ہوں تو وہ رو کے لپٹ جاتا ہے
میں نے گرنا ہے تو اس شخص نے مر جانا ہے

#راکب_مختار

Monday 16 May 2022

وادی جن کی سائنسی حقیقت


وادی جن کی سائنسی حقیقت
تحریر :مظہر عباس خان 

اس سے قبل کہ میں اس کی سائنسی حقیقت سے آگاہ کروں میں مقناطیسی پہاڑوں (Magnetic Hills) کے بارے میں بتانا چاہوں گا
ان پہاڑوں کو گریویٹی ہلز Gravity Hills بھی کہا جاتا ہے یہ پہاڑ عربی میں تلۃ مغناطیسیۃ کہلاتے ہیں 
مقناطیسی پہاڑوں کو پراسرار پہاڑ بھی کہا جاتا ہے
یہی وہ سیاہی مائل پہاڑ ہیں جو نظروں کو دھوکے میں ڈالتے ہیں اسی کی وجہہ سے التباس بصارت پیدا ہوتی ہے
اس کو انگریزی میںOptical illusion کہا جاتا ہے اس کو عربی میں خداع بصری اور فارسی میں خطا ی دید کہا جاتا ہے
یعنی ان پہاڑوں کی مقناطیسیت کے باعث اشیاء اپنی حقیقی صورت میں نظر نہیں آتیں یعنی یہ علاقہ انسانوں میں فریب نظر پیدا کرتا ہے 

نظروں کو فریب دینے والے یہ پہاڑ صرف وادی جن ہی میں نہیں پائے جاتے بلکہ دنیا کے بہت سارے مقامات پر موجود ہیں
خود ہندوستان کے دو علاقوں میں ایسے پہاڑ موجود ہیں جو نظروں کو فریب میں مبتلا کردیتے ہیں اور سڑک کے در حقیقت ڈھلان کو اونچائی میں ظاہر کرتے ہیں
جس کی وجہہ سے سڑک کا حقیقی ڈھلان بھی اونچا دکھائی دیتا ہے چونکہ اونچی دکھائی دینے والی سڑک پر موٹر گاڑی بند ہونے کے باوجود چڑھتی چلی جاتی ہے اسی لئے اس کو دنیا جنوں کی حرکت قرار دیتی ہے

ہندوستان میں علاقہ لداخ کے مقام لیہہ (Leh) سے تقریباً 50 کلو میٹر دور سمندر سے 11000 فٹ کی اونچائی پر موجود لیہہ کارگل سری نگر ہائی وے پر یہ علاقہ ہے
جہاں انجن کے بند ہونے کے باوجود موٹر گاڑی اونچائی پر چڑھ جاتی ہے اور کچھ لمحوں بعد تیزی اختیار کرکے بھاگنے لگتی ہے

ہندوستان کی ریاست گجرات کے علاقہ تلسی شیام Tulsishyam ضلع امریلی (Amreli)میں بھی گذشتہ برسوں ایسی سڑک دریافت ہوئی ہے جہاں گاڑی کا انجن بند ہونے کے باوجود موٹر گاڑی کشش ثقل کے برخلاف Up Hill پر چڑھنے لگتی ہے

Lake Wales
فلوریڈا میں Spook Hills ہیں جنہیں Magnetic Hills کہا جاتا ہے
اس علاقے میں بھی اشیاء الٹی جانب جاتی ہیں اسی لئے امریکہ کی عوام انہیں بد روحوں کا مسکن یعنی Spook Hill کہتی ہیں

کینڈا میں نیاگرا آبشار کے قریب Ontario کے Burlington میں بھی ایسے پہاڑ واقع ہیں جہاں کی سڑکوں پر موٹر کار الٹی جانب یعنی نشیب سے فراز کی جانب سفر کرتی ہے

رچمنڈ Richmond آسٹریلیا کے Mountain Bowen روڈ پر ایسے پہاڑ موجود ہیں جہاں قدرت کی نشانیوں کو دیکھا جا سکتا ہے تاکہ اس کی خلاقی پر ایمان لا سکیں 
اس سڑک پر صرف 50 میٹر کا علاقہ ہی ایسا ہے جہاں موٹر گاڑی اونچائی کی جانب چلنے لگتی ہے

ان کے علاوہ امریکہ کے علاقہ Shullsburg, Wisconsin کے مقناطیسی پہاڑ، یونان کے MountPenteli اسکاٹ لینڈ کے Electric Brae پہاڑ
مشی گن امریکہ کا Mystery Spot وغیرہ بھی شہرت رکھتے ہیں
دنیا کے سینکڑوں مقامات پر ہمیں ایسے پہاڑ مل جائیں گے جہاں نظروں کا دھوکا حقیقت کو بدل دیتا ہے اور سچ جھوٹ کے پردے میں گم ہو جاتا ہے
جس کی وجہہ سے ڈھلان سڑک بھی اونچی دکھائی دینے لگتی ہے اور عام آدمی کو اچھنبے میں ڈال دیتی ہے
میں یہاں بالخصوص ایک جدید سائنسی تجربے کا ذکر کرون گا جو ہمارے ذہنوں کو کھول کر اس میں حقیقت شناسی کے جذبے کو بھر دیتا ہے

یہ تجربہ عراق کی سلیمانی یونیورسٹی میں کیا گیا
عراق کی ایک ریاست خردستان ہے جہاں کے علاقہ کویا (Koya) میں بھی ایسے پہاڑ موجود ہیں
ان پہاڑوں پر سلیمانی یونیورسٹی کے ریسرچ اسکالر Perykhan M.Jaf نے تحقیق کی
اور ثابت کیا کہ کسی بھی Magnetic Hills کے اطراف موٹر گاڑی کی کشش ثقل کے خلاف محیر العقل حرکت نظروں کا دھوکہ ہے
ان کے پیش کردہ مقالے میں کافی وضاحت سے التباس بصری اور مقناطیسی پہاڑوں کو سمجھایا گیا
اس محقق نے کئی اقسام کے التباس بصری یعنی فریب نظر
کا ذکر بھی کیا ہے جو ہماری عام زندگی سے متعلق ہیں جیسے Illusions of length اور Illusions of shape وغیرہ

مدینہ کی وادی جن عجیب و غریب خوبصورتی رکھنے والی جگہ ہے
گول پہاڑوں سے گھرا ہوا یہ علاقہ زائد از سات میل کے علاقے پر پھیلا ہوا ہے
یعنی اس علاقے کی سات کلو میٹر لمبی سڑک ہمیں فریب نظر میں مبتلا کرتی ہے ایسی خصوصیت رکھنے والی اس قدر لمبی سڑک دنیا کے دوسرے مقامات پر بہت کم دکھائی دیتی ہے
وادی میں سڑک کی آخری حد تک جانے کے لئے موٹر گاڑیاں بڑی زور آزمائی کے ساتھ گذرتی ہیں
یہاں غور کرنے کی بات یہ ہے کہ بہ ظاہر آنکھوں کو ڈھلان دکھائی دینے والی اس سڑک پر موٹر گاڑی یا بس (Bus) کے انجن کو بڑی محنت کرنی پڑتی ہے
جو خود اس بات کا ثبوت ہے کہ ڈھلوان دکھائی دینے والی سڑک در حقیقت ڈھلوان نہیں ہے اور جب وادی کی آخری حد سے یہ بس پلٹتی ہیں تو بس کا ڈرائیور موٹر گاڑی کے انجن کو چالو رکھتاہے
لیکن ایکسلیٹر (Accelerator) سے پاؤں اٹھا لیتا ہے
گاڑی نیوٹرل گیر(Neutral Gear) میں آگے بڑھتی چلی جاتی ہے
یعنی دوسرے الفاظ گاڑی کا انجن بند ہوتا ہے لیکن گاڑی چلتی رہتی ہے
اور یہ یقیناً تعجب خیز بات ہے کہ ایکسلیٹر پر پاؤں کا دباؤ نہ ہونے کے باوجود گاڑی سڑک کے نشیب و فراز میں تیزی سے آگے بڑھتی جاتی ہے رفتہ رفتہ بس (Bus) کی رفتار میں مسلسل اضافہ ہوتا رہتا ہے
یہ خود میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ بس (Bus) کی رفتار ایک مرحلے پر ایک سو پچاس تک پہنچ گئی تھی اور ڈرائیور کے پیر ایکسلیٹر پر رکھے ہوئے نہیں تھے
بلکہ وہ اپنے پیروں کو سکوڑ کرسیٹ پر رکھے ادب سے بیٹھا اسٹیرنگ کنٹرول کر رہا تھا
ہاں کبھی کبھی جب رفتار حد سے بڑھ جاتی تو ڈرائیور کے پیر بریک پر پہنچ جاتے اور وہ گاڑی کے بریک لگا دیتا تاکہ گاڑی قابو میں رہے

نظروں کا دھوکہ Optical illusion دراصل حسی تجربات یا حس کو سمجھنے کی غلطی کا نتیجہ ہیں یعنی دکھائی دینے والی شئے سے متعلق آگاہی (Perception) کی غلطی غیر حقیقی صورت حال کو پیدا کرتی ہے
وادی جن میں بھی انسانی دماغ کی ادراکی صلاحیت حقیقت سے بعید ہوجاتی ہے 
آنکھوں کے ذریعہ حاصل کی جانے والی معلومات کا جب دماغ میں تجزیہ انجام پاتا ہے تو دماغ اور آنکھوں کے مابین کشمکش بصری قوت پر اثر انداز ہوتی ہے
اور ان مقناطیسی پہاڑوں سے نکلتی لہروں کے جلو میں انسان تذبذب کا شکار ہو جاتا ہے

اس کا ادراک صحیح فیصلہ نہیں کرپاتا کہ وہ کیا دیکھ رہا ہے اور وہ بالآخر غلط دیکھنے لگتا ہے
وادی جن میں بھی یہی اصول کارفرما ہے علاوہ اس کے اس علاقے میں پائے جانے والے مقناطیسی پہاڑوں کے پھیلاؤ اور رفعت کے باعث افق (Horizon) واضح نظر نہیں آتا جو انتشار بصری کی اہم وجہہ ہے
Horizon 
یعنی وہ واضح خط جو زمین کو آسمان سے جدا کرتا ہے اسی لئے اس علاقے میں سڑک ڈھلان ہونے کے باوجود بھی اونچائی کی طرف جاتی ہوئی نظر آتی ہے
اس کیفیت سے انسان عجیب عقیدت میں ڈوب جاتا ہے اور ان پہاڑیوں پر اس کو اللہ کے حروف دکھائی دینے لگتے ہیں
کہیں بظاہر ایسا محسوس کرنے لگتا ہے جیسے پتھر سجدہ ریز ہیں 
نظر کے اس دھوکے کو طبعیات کے سادہ اصولوں سے بآسانی سمجھا جاسکتا ہے
ہم زندگی میں نظروں کے دھوکے کی کیفیت سے کئی ایک بار دو چار ہوتے ہیں
جیسے اونچا درخت جو کھڑا ہوا ہے لمبا دکھائی دیتا اگر اسی درخت کو کاٹ کر زمین پر رکھ دیں تو زمین پر رکھا ہوا درخت نسبتاً چھوٹا دکھائی دیتا ہے

جہاں تک وادی جن مدینہ المنور کی بات ہے نہ صرف سائنسداں بلکہ عام افراد نے بھی اس کی حقیقت جاننے کے لئے تجربات کئے ہیں
اگر ہم گوگل ارتھ کے ذریعہ اس علاقے کا مشاہدہ کریں تو ایسی خصوصیت رکھنے والی یہ سڑک تقریباً 7 کلو میٹر لمبی نظر آئے گی
اور ان 7 کلو میٹر فاصلے کے دوران سڑک کے ڈھلان کا زاویہ 11.5 ڈگری ہو گا
اور سڑک کے دونوں حدوں کے بیچ 310 میٹر ڈھلان موجود ہو گا
لیکن واہ رے قدرت کہ اس قدر ڈھلان کے باوجود انسانی آنکھ کو یہ ڈھلان اونچائی بن کر دکھائی دیتا رہتا ہے
اسی لئے ایسی وادیاں یا وادی جن مافوق الفطرت اور پراسرار قوتوں کا مرکز دکھائی دیتی ہیں

Sunday 15 May 2022

hum jo insano ki tehzeeb liye phirte hain

ہم جو انسانوں کی تہذیب لئے پھرتے ہیں 
ہم سا وحشی کوئی جنگل کے درندوں میں نہیں


Saturday 14 May 2022

کیا چھت پر سفید رنگ کرنے سے گرمی کم ہو جاتی ہے؟؟؟




کیا چھت پر سفید رنگ کرنے سے گرمی کم ہو جاتی ہے؟؟؟

یہ تحریر بی بی سی اردو کی ویب سائٹ پر پہلی مرتبہ جون سنہ 2019 میں شائع کی گئی تھی، جسے آج دوبارہ پیش کیا جا رہا ہے۔

عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ عمارت کی چھت کو سفید رنگ کرنے سے سورج کی گرمی اس پر پڑ کر واپس ہو جاتی ہے جو درجۂ حرارت کم کرنے کا سب سے درست طریقہ ہے لیکن یہ طریقۂ کتنا موثر ہے اور اس کے منفی اثرات کیا ہیں؟

اقوامِ متحدہ کے سابق جنرل سیکریٹری بان کی مون نے حال ہی میں بی بی سی کو ایک انٹرویو کے دوران بتایا کہ یہ 30 ڈگری تک کم ہو سکتا ہے اور گھر کے اندر کا درجۂ حرارت سات ڈگری تک گر سکتا ہے۔

یہ اعداد و شمار کہاں سے آئے اور کون سی تحقیق انھیں درست ثابت کرتی ہے؟

بانکی مون انڈیا کی ریاست گجرات کے شہر احمد آباد میں جاری ایک پائلٹ پروجیکٹ کی بات کر رہے تھے۔ احمد آباد میں گرمیوں میں درجۂ حرارت 50 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ جاتا ہے۔

سنہ 2017 میں شہر بھر کی تین ہزار سے زیادہ چھتوں کو سفید رنگ کا خاص پینٹ لگایا گیا۔

یہ چھت ٹھنڈا کرنے کا ایسا عمل ہے جو سورج سے پیدا ہونے والی گرمی کو کم کرتا ہے تاکہ کم سے کم گرمی عمارت کے اندر پہنچے۔

جتنی گرمی عمارت نے جذب کی، چھت ٹھنڈا کرنے کا یہ عمل اس گرمی کو باہر نکال کر درجۂ حرارت کم کرنے میں بھی مدد دیتا ہے۔

اس پروجیکٹ کی دستاویزات میں کہا گیا ہے کہ منعکس کرنے والی چھت کی یہ تہہ چھت کا درجۂ حرارت 30 سینٹی گریڈ جبکہ گھر کے اندر کا درجۂ حرارت تین سے سات ڈگری تک کم کر سکتی ہے۔

انڈیا کی جنوبی ریاست حیدرآباد میں جاری ایک اور پائلٹ پروجیکٹ میں چھت ٹھنڈا کرنے کے لیے جھلی دار شیٹ استعمال کی گئی ہے جس سے گھر کے اندر کا درجۂ حرارت باہر کے مقابلے میں دو ڈگری سے بھی کم پایا گیا۔

جہاں تک درجۂ حرارت کے 30 ڈگری تک گرنے کا سوال ہے تو گجرات کے پائلٹ پروجیکٹ میں اس کا کوئی جواب نہیں ملا لیکن امریکی ریاست کیلیفورنیا کی برکلے لیبارٹری میں ایسے نتائج سامنے آئے ہیں۔

تحقیق سے ظاہر ہوا ہے کہ سفید چھت سے 80 فیصد تک روشنی ٹکرا کر واپس ہو جاتی ہے اور سخت گرمیوں کے دنوں کے میں یہ چھت 31 ڈگری تک درجۂ حرارت کم کر سکتی ہے۔

یقیناً کیلیفورنیا کے حالات انڈیا سے مختلف ہوں گے۔ وہاں 60 فیصد سے زیادہ چھتوں کی تعمیر میں دھات، ایسبسٹوس اور کنکریٹ استعمال کیا جاتا ہے جس میں سفید پینٹ کی تہہ کے باوجود گرمی عمارت کے اندر ہی موجود رہتی ہے۔

تاہم احمد آباد اور حیدر آباد جیسے انڈین شہروں میں چلنے والے پائلٹ منصوبوں میں کامیابی دیکھی گئی

یہ کوئی نیاخیال نہیں

تو مزید شہروں کی زیادہ سے زیادہ چھتوں پر سفید پینٹ کیوں نہیں کیے جا رہے ہیں؟ آئیڈیا نیا نہیں، صدیوں سے جنوبی یورپ اور شمالی افریقی ممالک میں سفید چھتیں اور دیواریں دیکھی جا رہی ہیں۔

حال ہی میں نیویارک شہر کے 10 ملین مربع فٹ چھتوں پر سفید پینٹ کیا گیا۔

کیلیفورنیا جیسی جگہوں پر سرد چھتوں کو فروغ دینے کے لیے بلڈنگ کوڈز کو اپ ڈیٹ کیا گیا۔ اسے توانائی بچانے کا اہم طریقہ سمجھا جا رہا ہے۔

ٹھنڈی چھتیں آپ کے ایئر کنڈیشنگ بل کو بھی 40 فیصد تک کم کر سکتی ہیں۔

کم قیمت اور بچت بھی

بھوپال میں کیے گئے ایک تجربے میں معلوم ہوا کہ ایسی عمارتیں جو کم اونچائی پر ہوں ان میں سورج کی روشنی منعکس کرنے والا پینٹ زیادہ سے زیادہ گرمی میں 303 کلو واٹ تک توانائی بچا سکتا ہے۔

ایک اندازے کے مطابق اگر چھت ٹھنڈا کرنے کے پینٹ کو دنیا بھر میں ہر چھت پر استعمال کیا جائے تو اس سے عالمی سطح پر کاربن کے اخراج میں کمی کا امکان ہے۔

برکلے لیبارٹری کا کہنا ہے کہ سورج کی روشنی کو واپس پلٹانے والی کنکریٹ چھت 24 گیگاٹن تک کاربن ڈائی آکسائیڈ کو ٹھنڈا کر سکتی ہے۔

یہ ایسے ہی ہے جیسے 20 سال کے لیے 300 ملین گاڑیاں سڑکوں سے ہٹا لی جائیں۔ یقینی طور پر یہ کم قیمت والا آپشن ہے، خاص طور پر غریب ملکوں کے لیے۔

جیسوال کا کہنا ہے ’روشنی منعکس کرنے والے مہنگے پینٹ یا چھت ٹھنڈا کرنے والی جھلی دار شیٹ کے مقابلے میں چونے کی ایک تہہ کی قیمت محض ڈیڑھ روپیہ فی فٹ ہے۔‘

وہ کہتی ہیں ’ذاتی آرام، توانائی کی بچت اور ٹھنڈا کرنے کے درمیان فرق بہت اہم ہے تاہم سیاسی عزم کے فیصلوں پر عمل درآمد کی بہت اہمیت ہے۔‘

منفی اثرات

جیسوال کہتی ہیں کہ ’ہاں، اس کے چند منفی پہلوؤں پر بھی غور کیا جانا چاہیے۔‘

جن شہروں میں سردی زیادہ پڑتی ہو یا جہاں سردی کا موسم ہو وہاں چھتوں کو گرم کرنے ضرورت پیش آ سکتی ہے لیکن ایسا کرنے میں ان چھتوں سے پڑنے والے دباؤ کا ایک قدرتی خطرہ بھی موجود ہے۔

اس وجہ سے یونیورسٹی کالج لندن کی ٹیم نے نئی دہلی میں بحالی کے تعمیراتی منصوبے میں سفید پینٹ کا استعمال نہیں کیا۔

نئی دہلی سینٹر کے اربن اور ریجنل اتھارٹی کے مرکز میں رینو کھوسلا کہتے ہیں کہ ’یہاں رہنے والے ان کی چھتوں کو سفید پینٹ کرنے کے خلاف تھے کیونکہ ان کی چھتوں کو کئی دوسرے کاموں میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’روشنی منعکس کرنے والا یہ پینٹ کرنے کے بعد چھت کو دیگر کاموں یا روزمرہ کے لیے استعمال کرنا مشکل ہے۔

انسان زمینی مخلوق نہیں ھے

انسان زمینی مخلوق نہیں ھے: 
امریکی ایکولوجسٹ ڈاکٹر ایلس سِلور کی تہلکہ خیز ریسرچ: 
ارتقاء (Evolution) کے نظریات کا جنازہ اٹھ گیا: 
ارتقائی سائنسدان لا جواب: 

انسان زمین کا ایلین ہے ۔ 

ڈاکٹر ایلیس سِلور(Ellis Silver)نے اپنی کتاب (Humans are not from Earth)  میں تہلکہ خیز دعوی کیا ہے کہ انسان اس سیارے زمین کا اصل رہائشی  نہیں ہے بلکہ اسے کسی دوسرے سیارے پر تخلیق کیا گیا اور کسی وجہ سے اس کے اصل سیارے سے اس کے موجودہ رہائشی سیارے زمین پر پھینک دیا گیا۔

ڈاکٹر ایلیس جو کہ ایک سائنسدان محقق مصنف اور امریکہ کا نامور ایکالوجسٹ(Ecologist)ھے اس کی کتاب میں اس کے الفاظ پر غور کیجئیے۔ زھن میں رھے کہ یہ الفاظ ایک سائنسدان کے ہیں جو کسی مذھب پر یقین نہیں رکھتا۔ 

اس کا کہنا ھے کہ انسان جس ماحول میں پہلی بار تخلیق کیا گیا اور جہاں یہ رھتا رھا ھے وہ سیارہ  ،  وہ جگہ اس قدر آرام دہ پرسکون اور مناسب ماحول والی تھی جسے  وی وی آئی پی کہا جا سکتا ھے وہاں پر انسان بہت ھی نرم و نازک ماحول میں رھتا تھا اس کی نازک مزاجی اور آرام پرست طبیعت سے معلوم ھوتا ھے کہ اسے  اپنی روٹی روزی کے لئے کچھ بھی تردد نہین کرنا پڑتا تھا ، یہ کوئی بہت ہی لاڈلی مخلوق تھی جسے اتنی لگژری لائف میسر  تھی ۔  ۔ وہ ماحول ایسا تھا جہاں سردی اور گرمی کی بجائے بہار جیسا موسم رھتا تھا اور وہاں پر سورج جیسے خطرناک ستارے کی تیز دھوپ اور الٹراوائلیٹ شعاعیں بالکل نہیں تھیں جو اس کی برداشت سے باھر اور تکلیف دہ ھوتی ہیں۔ 

 تب اس مخلوق انسان  سے کوئی غلطی ہوئی ۔۔

اس کو کسی غلطی کی وجہ سے اس آرام دہ اور عیاشی کے ماحول سے نکال کر پھینک دیا گیا تھا ۔جس نے انسان کو اس سیارے سے نکالا لگتا ہے وہ کوئی انتہائی طاقتور ہستی تھی جس کے کنٹرول میں سیاروں ستاروں کا نظام  بھی تھا  ۔۔۔ وہ جسے چاہتا ، جس سیارے پر چاہتا ، سزا یا جزا کے طور پر کسی کو بھجوا سکتا تھا۔  وہ مخلوقات کو پیدا کرنے پر بھی قادر تھا۔ 

 ڈاکٹر سلور  کا کہنا ہے کہ ممکن ہے  زمین کسی ایسی جگہ کی مانند تھی جسے جیل قرار دیا جاسکتا ھے ۔ یہاں پر صرف مجرموں کو سزا کے طور پر بھیجا جاتا ہو۔ کیونکہ زمین کی شکل۔۔ کالا پانی جیل کی طرح ہے ۔۔۔ خشکی کے ایک ایسے ٹکڑے کی شکل جس کے چاروں طرف سمندر ہی سمندر ھے ، وہاں انسان کو بھیج دیا گیا۔

 ڈاکٹر سلور ایک سائنٹسٹ ہے جو صرف مشاہدات کے نتائج حاصل کرنے بعد رائے قائم کرتا ہے ۔ اس کی کتاب میں سائنسی دلائل کا ایک انبار ہے جن سے انکار ممکن نہیں۔
اس کے دلائل کی بڑی بنیاد جن پوائنٹس پر ھے ان میں سے چند ایک ثابت شدہ یہ ہیں۔ 

نمبر ایک ۔ زمین کی کش ثقل اور جہاں سے انسان آیا ہے اس جگہ کی کشش ثقل میں بہت زیادہ فرق ہے ۔ جس سیارے سے انسان آیا ہے وہاں کی کشش ثقل زمین سے بہت کم تھی ، جس کی وجہ سے انسان کے لئے چلنا پھرنا بوجھ اٹھا وغیرہ بہت آسان تھا۔ انسانوں کے اندر کمر درد کی شکایت  زیادہ گریوٹی کی وجہ سے ہے ۔  

نمبر دو ؛انسان میں جتنے دائمی امراض پائے جاتے ہیں وہ باقی کسی ایک بھی مخلوق میں نہیں جو زمین پر بس رہی ہے ۔ ڈاکٹر ایلیس لکھتا ہے کہ آپ اس روئے زمین پر ایک بھی ایسا انسان دکھا دیجئیے جسے کوئی ایک بھی بیماری نہ ہو تو میں اپنے دعوے سے دستبردار ہوسکتا ہوں جبکہ میں آپ کو ھر جانور کے بارے میں بتا سکتا ہوں کہ وہ وقتی اور عارضی بیماریوں کو چھوڑ کر کسی ایک بھی مرض میں ایک بھی جانور گرفتار نہیں ہے ۔ 

نمبر تین ؛ ایک بھی انسان زیادہ دیر تک دھوپ میں بیٹھنا برداشت نہیں کر سکتا بلکہ کچھ ہی دیر بعد اس کو چکر آنے لگتے ہیں اور سن سٹروک کا شکار ہوسکتا ہے جبکہ جانوروں میں ایسا کوئی ایشو نہیں ھے مہینوں دھوپ میں رھنے کے باوجود  جانور نہ تو کسی جلدی بیماری کا شکار ہوتے ہیں اور نہ ہی کسی اور طرح کے مر ض میں مبتلا ہوتے ہیں جس کا تعلق سورج کی تیز شعاعوں یا دھوپ سے ہو۔ 

نمبر چار ؛ ہر انسان یہی محسوس کرتا ہے اور ہر وقت اسے احساس رہتا ہے کہ اس کا گھر اس سیارے پر نہیں۔ کبھی کبھی اس پر بلاوجہ ایسی اداسی طاری ہوجاتی ہے جیسی کسی پردیس میں رہنے والے پر ہوتی ہے چاہے وہ بیشک اپنے گھر میں اپنے قریبی خونی  رشتے داروں کے پاس ہی کیوں نا بیٹھا ہوں۔ 

نمبر پانچ زمین پر رہنے والی تمام مخلوقات کا ٹمپریچر آٹومیٹک طریقے سے ہر سیکنڈ بعد ریگولیٹ ہوتا رہتا ہے یعنی اگر سخت اور تیز دھوپ ھے تو ان کے جسم کا درجہ حرارت خود کار طریقے سے ریگولیٹ ہو جائے گا، جبکہ اسی وقت اگر بادل آ جاتے ہیں تو ان کے جسم کا ٹمپریچر سائے کے مطابق ہو جائے گا جبکہ انسان کا ایسا کوئی سسٹم نہیں بلکہ انسان بدلتے موسم اور ماحول کے ساتھ بیمار ھونے لگ جائے گا۔ موسمی بخار کا لفظ صرف انسانوں میں ھے۔ 

نمبر چھ ؛انسان اس سیارے پر پائے جانے والے دوسرے جانداروں سے بہت مختلف ہے ۔ اسکا ڈی این اے اور جینز کی تعداد اس سیارہ زمین پہ جانے والے دوسرے جانداروں سے بہت مختلف اور بہت زیادہ ہے۔ 

نمبر سات: زمین کے اصل رہائشی (جانوروں) کو اپنی غذا حاصل کرنا اور اسے کھانا مشکل نہیں، وہ ہر غذا ڈائریکٹ کھاتے ہیں، جبکہ انسان کو اپنی غذا کے چند لقمے حاصل کرنے کیلیئے ہزاروں جتن کرنا پڑتے ہیں، پہلے چیزوں کو پکا کر نرم کرنا پڑتا ھے پھر اس کے معدہ اور جسم کے مطابق وہ غذا استعمال کے قابل ھوتی ھے، اس سے بھی ظاہر ھوتا ھے کہ انسان زمین کا رہنے والا نہیں ھے ۔ جب یہ اپنے اصل سیارے پر تھا تو وہاں اسے کھانا پکانے کا جھنجٹ نہیں اٹھانا پڑتا تھا بلکہ ہر چیز کو ڈائریکٹ غذا کیلیئے استعمال کرتا تھا۔
مزید یہ اکیلا دو پاؤں پر چلنے والا ھے جو اس کے یہاں پر ایلین ھونے کی نشانی ھے۔

نمبر آٹھ: انسان کو زمین پر رہنے کیلیے بہت نرم و گداز بستر کی ضرورت ھوتی ھے جبکہ زمین کے اصل باسیوں یعنی جانوروں کو اس طرح نرم بستر کی ضرورت نہیں ھوتی۔ یہ اس چیز کی علامت ھے کہ انسان کے اصل سیارے پر سونے اور آرام کرنے کی جگہ انتہائی نرم و نازک تھی جو اس کے جسم کی نازکی کے مطابق تھی ۔ 

نمبر نو: انسان زمین کے سب باسیوں سے بالکل الگ ھے ۔

pohnch gaya wo jab hawas k akhiri maqam par

پہنچ گیا وہ جب ہوس کے آخری مقام پر
جھپٹ پڑا حلال زادہ خوبرو حرام پر

یہ کس کے پاس میکدوں کا انتظام آ گیا
شراب رند مانگنے لگے خدا کے نام پر

ادھر طوائفوں میں کھو گیا ہے شاہ سلطنت
ادھر مری پڑی ہیں شاہ زادیاں  غلام پر

تمام دوست پنسلوں سے لیس ہو کے آئے تھے
سبھی نے حاشیہ لگا دیا ہے میرے نام پر

یہ سوچ کر کہ گھر کے پنچھیوں کو کیا جواب دوں
نہیں گیا شکاریوں کی دعوت طعام پر

ہم اس کی آنکھیں چومنے کے جرم میں سزا ہوئے
جو آنکھ رکھ کے بیٹھا ہے ہمارے صبح و شام پر

ٹپک رہی ہے روشنی حسین خدوخال سے
وہ رات اوڑھ کے نکل رہی ہے اپنے کام پر

وہ داد تک وصول کر سکا نہ اپنے کرب کی
کہانی کار مر گیا پہنچ کے اختتام پر

راکب مختار

Thursday 12 May 2022

sari aqal o hosh ki Asaishyn tum ne



ساری عقل و ہوش کی آسائشیں تم نے سانچے میں جنوں کی ڈھال دیں
 کر لیا تھا میں نے عہد ترک عشق تم نے پھر بانہیں گلے میں ڈال دیں


Tuesday 10 May 2022

گردن سیاہ ہونے کی کیا وجہ ہے؟

گردن سیاہ ہونے کی کیا وجہ ہے؟
تحریر : کرامت علی
سیاہ گردنیں ایک بہت عام رجحان ہے۔ گردن کے سیاہ ہونے کی وجہ بتانے کے لیے بہت سے عوامل پر غور کرنا پڑتا ہے۔ جلد کی دیکھ بھال کی عادات کے بارے میں بات کرتے ہوئے، ہم اپنے چہروں، پرائیویٹ ایریاز کے لیے بہت کچھ کرتے ہیں، لیکن اکثر گردن کا خیال رکھنا بھول جاتے ہیں۔ یہ لاپرواہی ہماری گردن کے گرد جلد کی سیاہی کا سبب بن سکتی ہے۔
مختلف عوامل ہیں جو گردن کی سیاہی کا سبب بنتے ہیں۔ تو آئیے دیکھتے ہیں گردن کی سیاہی کا سبب کیا ہے۔
ڈرمیٹیٹائٹس نیگلکٹاDermatitis Neglecta:
ڈرمیٹائٹس نیگلیکٹا جلد کی ایک ایسی حالت ہے جس میں بیکٹیریا، پسینہ، تیل، جلد کے مردہ خلیات اور دیگر آلودگی جلد پر زیادہ دیر تک جمع ہوتے ہیں اور جلد کی رنگت کا باعث بنتے ہیں۔ یہ زیادہ تر اس وقت ہوتا ہے جب جلد کو صابن اور پانی سے صحیح طریقے سے نہیں دھویا جاتا ہے۔زیادہ تر لوگوں میں گردن کی سیاہی dermatitis neglecta کی وجہ سے ہوتی ہے کیونکہ یہ علاقہ اکثر صفائی کے معاملے میں نظرانداز کیا جاتا ہے۔ نتیجے کے طور پر، گردن کے ارد گرد جلد کی رنگت ہوتی ہے.
کچھ دوائیں Certain Medications:
کچھ دوائیں میلانین melanin کی پیداوار کو بڑھا سکتی ہیں جو جلد کو سیاہ کرتی ہیں۔ میلانین کی زیادہ پیداوار کو ہائپر پگمنٹیشن hyperpigmentation کہا جاتا ہے۔ ان دوائیوں میں فینیٹوئن، ملیریا سے بچنے والی، اینٹی سائیکوٹک ادویات، ٹیٹراسائکلائنز، اور غیر سٹیرایڈیل اینٹی سوزش والی دوائیں شامل ہیں۔ اس لیے اگر آپ ان میں سے کوئی بھی دوائی مستقل بنیادوں پر استعمال کر رہے ہیں، تو یہ آپ کی گردن کی جلد کی رنگت کا باعث بن سکتی ہے۔
فنگل انفیکشن Fungal infection:
ایک فنگس Malassezia furfur،جلد پر فنگل انفیکشن کا باعث بنتی ہے جسے ٹینی ورسکلرTinea Versicolor کہا جاتا ہے۔ عام طور پر، اس قسم کا خمیر yeast جلد پر پہلے سے موجود ہوتا ہے لیکن اس کی ضرورت سے زیادہ نشوونما آپ کی گردن کے آس پاس کی جلد پر سیاہ دھبوں کو متحرک کر سکتی ہے۔
سورج کی الٹراوائلٹ شعاعیں Exposure To The Sun:
جب ہماری جلد سورج کی روشنی کے سامنے آتی ہے تو یہ جلد کی نچلی تہہ کو سورج کی الٹرا وائلٹ شعاعوں سے بچانے کے لیے میلانین پیدا کرتی ہے۔ یہ میلانین جلد کو سیاہ کرتا ہے۔ ہماری گردن ایک ایسا علاقہ ہے جو سورج کے سامنے آسانی سے آ جاتا ہے کیونکہ زیادہ تر وقت یہ بے پردہ رہتا ہے۔ لہذا سورج کی روشنی میں زیادہ دیر تک رہنا ہماری گردن کے علاقے کی جلد میں میلانین کی پیداوار کو بڑھا سکتا ہے جو ہماری گردن کو سیاہ کرتا ہے۔
ڈیسکریٹوسس کونجینیٹا Dyskeratosis congenita:
یہZinsser-Engman-Cole syndrome کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، dyskeratosis congenita گردن کی جلد کی ہائپر پیگمنٹیشن کا سبب بنتا ہے۔ گردن گندی لگ سکتی ہے۔گردن پر گہرے دھبوں کے علاوہ، یہ حالت منہ کے اندر سفید دھبے، ناخنوں کے چھلکے، اور پلکوں کے جھڑنے کا سبب بن سکتی ہے۔
ایریتھما ڈس کرومیم پرسٹانس Erythema dyschromicum perstans:
ایریتھما ڈس کرومیم پرسٹانس Erythema dyschromicum perstans، یا ashy dermatosis ، گردن اور بازوؤں کے اوپری حصے پر سلیٹ سرمئی، گہرا نیلا، یا سیاہ فاسد شکل کے دھبے کا سبب بنتا ہے۔ دھڑ پر بعض اوقات دھبے ظاہر ہو سکتے ہیں۔ یہ حالت اثر میں نقصان دہ نہیں ہے اور کسی بنیادی طبی حالت کی نشاندہی نہیں کرتی ہے۔
خون میں انسولین کی بلند سطح High blood insulin levels:
جب کسی شخص میں انسولین کی سطح دائمی طور پر زیادہ ہوتی ہے، تو وہ گردن پر خاص طور پر گردن کے پچھلے حصے میں ہائپر پگمنٹیشن کے علاقوں کا تجربہ کر سکتا ہے۔ پولی سسٹک اووری سنڈروم (PCOS) والی خواتین میں یہ واقعہ عام ہے۔
ایل پی پی Lichen planus pigmentosus (LPP):
ایل پی پی ایک سوزش والی حالت ہے جس کی وجہ سے جسم کے حصوں پر داغ پڑ جاتے ہیں۔ علامات میں چہرے اور گردن پر سرمئی بھورے سے سیاہ دھبے شامل ہیں۔ دبھوں میں خارش یا کھجلی نہی ہوتی ہے ۔.
اکانتھوسس نگریکنز Acanthosis Nigricans:
بعض اوقات اکانتھوسس نگریکنز گردن کے گرد سیاہ جلد کا سبب بنتے ہیں۔  اکانتھوسس نگریکنز Acanthosis Nigricans یا AN جلد کا ایک عارضہ ہے جس میں جلد کے تہہ موٹے اور سیاہ ہو جاتے ہیں۔ AN خاص طور پر نالی کے علاقے، بغلوں، یا گردن کے پچھلے حصے میں ہوتا ہے۔ بہت سارے عوامل ہیں جو AN کا سبب بنتے ہیں۔ یہ حالت اچانک ظاہر ہو سکتی ہے، لیکن یہ متعدی نہیں ہے اور نہ ہی یہ کسی شخص کی صحت کے لیے خطرہ ہے۔ وہ لوگ جو موٹے ہیں اور جو ذیابیطس کے شکار ہیں ان کو اس حالت کا زیادہ خطرہ ہوتا ہے۔ شاذ و نادر صورتوں میں، acanthosis nigricans زیادہ سنگین بنیادی طبی حالت کی نشاندہی کر سکتے ہیں، جیسے پیٹ یا جگر کا کینسر۔
اگر آپ کی گردن کے ارد گرد کی جلد سیاہ ہو رہی ہے تو آپ کو درج ذیل صحت کی حالتیں ہو سکتی ہیں۔
اکانتھوسس نگریکنز Acanthosis Nigricans کی وجوہات:
موٹاپا Obesity:
موٹاپا ان عوامل میں سے ایک ہے جو AN کے امکانات کو بڑھا سکتا ہے۔ انسولین، ایک ہارمون جو خون میں شکر کی سطح کو کنٹرول کرتا ہے، اگر آپ کا وزن اپنے مثالی جسمانی وزن سے زیادہ ہو تو اس میں خلل پڑ سکتا ہے۔ لہٰذا، خون میں انسولین کی سطح بڑھ جاتی ہے جو ہائپر پگمنٹیشن کا باعث بنتی ہے اور یہ آپ کی گردن کے ارد گرد کی جلد اور جلد کے دیگر تہوں کو آہستہ آہستہ سیاہ کر دیتی ہے۔
ٹائپ 2 ذیابیطس Type 2 diabetes:
ٹائپ 2 ذیابیطس والے لوگوں میں بلڈ شوگر کی سطح زیادہ ہوتی ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق یہ لوگ دوسروں کے مقابلے اے این کے لیے زیادہ حساس ہوتے ہیں۔
ادویات Medications:
کچھ دوائیں AN ہونے کے امکانات کو متحرک کرسکتی ہیں۔ ان ادویات میں انسولینinsulin، کورٹیکوسٹیرائڈزcorticosteroids، پیدائش پر قابو پانے کی گولیاںbirth control pills، اور نیاسین niacin کی زیادہ مقدار شامل ہے۔ اگر آپ ان دوائیوں میں سے کسی ایک کو زیادہ دیر تک استعمال کر رہے ہیں تو یہ آپ کی گردن کو سیاہ کر سکتی ہے۔
ہارمونل عوارض Hormonal Disorders:
خون میں انسولین کی سطح کچھ ہارمونل عوارض کی وجہ سے غیر متوازن ہو سکتی ہے جن میں ہائپوٹائرائڈزم hypothyroidism، اکرومیگالی acromegaly اور کشنگ سنڈروم Cushing syndrome شامل ہیں۔ لہذا، یہ ہارمونل عوارض آپ کو اکانتھوسس نگریکنز AN کے لیے زیادہ حساس بنا سکتے ہیں جو آپ کی گردن کے ارد گرد کی جلد کو سیاہ کرنے کا سبب بنتا ہے۔
جینیات Genetics:
مطالعات سے پتہ چلتا ہے کہ وہ لوگ AN ہونے کا زیادہ خطرہ رکھتے ہیں، جن کے خاندان کے ممبر میں AN ہے یا تھا۔
کالی گردن کے علاج کے اختیارات میں درج ذیل شامل ہو سکتے ہیں۔
ایکس فولی ایشن exfoliation.
نسخے کی دوائیں بشمول سیلیسیلک ایسڈ salicylic acid،  ریٹین-اے Retin-A ، اور الفا ہائیڈروکسی ایسڈ alpha hydroxy acids، نیز منہ کے مہاسوں کی دوائیں.
کیمیائی چھلکے chemical peels.
لیزر کے ذریعے علاج laser treatments.
تشخیص Diagnosis:
ایک ڈاکٹر کسی شخص سے اس کی طبی تاریخ اور دواؤں یا طرز زندگی کی عادات میں ہونے والی کسی بھی حالیہ تبدیلی کے بارے میں پوچھ کر گردن کالی ہونے کی وجہ کی تشخیص کرے گا۔وہ بصری طور پر گردن کا معائنہ کریں گے اور اگر وجہ واضح نہ ہو تو اس شخص کو ڈرمیٹولوجسٹ dermatologist کے پاس بھیج سکتے ہیں۔
ممکنہ بنیادی وجہ کا تعین کرنے کے لیے ڈاکٹر درج ذیل میں سے کچھ ٹیسٹ بھی کر سکتا ہے:
خون کے ٹیسٹ:
خون میں شوگر یا ہارمون کی سطح کے لیے ایک ٹیسٹ کیا جا سکتا ہے۔
جلد کا نمونہ:
اس بات کا تعین کرنے کے لیے جلد کو کھرچا یا بایوپسی biopsy کی جا سکتی ہے کہ آیا فنگل سیلز موجود ہیں۔
علاج Treatment:
ایک بار جب ڈاکٹر کالی گردن کی وجہ کا تعین کر لیتا ہے، تو وہ حالت کے لحاظ سے مخصوص حل تجویز کرے گا۔
ٹینی ورسکلر Tinea Versicolor:
ایک ڈاکٹر عام طور پر فنگل انفیکشن کا علاج اینٹی فنگل مرہم سے کرے گا جو جلد پر لگایا جا سکتا ہے۔ شدید صورتوں میں منہ سے اینٹی فنگل ادویات کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔
ڈرمیٹیٹائٹس نیگلکٹا Dermatitis neglectans:
صابن اور پانی سے رگڑنے سے اکثر ڈرمیٹائٹس کے نظرانداز ہونے سے گردن کی کالی ظاہری شکل کو کم کیا جاسکتا ہے۔ ایک شخص گردن کو غسل میں بھگونا چاہتا ہے یا ضدی ملبے کو ڈھیلنے کے لیے گرم کمپریس لگا سکتا ہے۔
اکانتھوسس نگریکنز Acanthosis nigricans:
اگرچہ جلد کو ہلکا کرنے والی کریمیں اور اسکربس موجود ہیں جو acanthosis nigricans سے وابستہ جلد کی سیاہی کو کم کرنے کا وعدہ کرتے ہیں، لیکن یہ عام طور پر غیر موثر ہوتے ہیں۔ بنیادی وجوہات کو حل کرنے سے مدد مل سکتی ہے، جیسے خون میں شکر کی سطح کو منظم کرنا اور وزن کم کرنا۔
ہائپر پگمنٹیشن Hyper pigmentation:
ہائپر پگمنٹیشن کے علاج میں ٹاپیکل ٹریٹائنائن topical tretinoinشامل ہوسکتا ہے، ریٹینوک ایسڈ retinoic acid کی ایک شکل جو جلد کے خلیوں کی تبدیلی کی حوصلہ افزائی کرتی ہے۔ لیزر علاج ہائپر پگمنٹیشن کے واقعات کو کم کرنے میں بھی مدد کر سکتے ہیں۔
دوسرے علاج کسی شخص کی بنیادی حالت اور مجموعی صحت پر منحصر ہوں گے۔
نوٹ:
سیاہ گردن اپنے طور پر کوئی نقصان دہ یا متعدی حالت نہیں ہے۔ تاہم، یہ زیادہ سنگین حالت کی علامت ہو سکتی ہے، لہذا آپ کو اپنی جلد کے سیاہ ہونے کی پہلی علامات پر اپنے ڈاکٹر سے ملنا چاہیے۔ وہ وجہ کی تشخیص اور علاج میں مدد کر سکتے ہیں اور ساتھ ہی علاج کے اختیارات پر بات کر سکتے ہیں تاکہ آپ کی جلد کو اس کے اصل رنگ میں واپس آنے میں مدد ملے۔

Sunday 8 May 2022

مجھے چار طرح کے غافلوں پر تعجب ہے جو چار مسائل کے حل سے غافل ہیں​۔

مجھے چار طرح کے غافلوں پر تعجب ہے جو چار مسائل کے حل سے غافل ہیں​۔

1 - مجھے تعجب ہے اس پر جو "غم" سے آزمایا گیا​ اور پھر بھی اس آیت سے غفلت کرتا ہے :
​۞ لا إلهَ إلاّ أنتَ سُبحانكَ إني كنتُ من الظالمين ۞​
​​الٰہی تیرے سوا کوئی معبود نہیں تو پاک ہے، بیشک میں ﻇالموں میں ہو گیا​​ (الأنبياء 21:87)
کیا تم نہیں جانتے کہ اس دعا پر اللہ نے کیا جواب دیا؟
الله سبحانہ و تعالٰی نے اس کے بعد فرمایا؛
​۞ فاستجبنا لهُ ونجيناهُ من الغم۔۔۔۔۔۔ ۞
​​تو ہم نے اس کی پکار سن لی اور اسے غم سے نجات دے دی اور ہم ایمان والوں کو اسی طرح بچا لیا کرتے ہیں​.

2- مجھے تعجب ہے اس پر جو "بیماری" سے آزمایا گیا​، کہ وہ کیسے اس دعا سے غفلت کرتا ہے :
​۞ ربي إني مسّنيَ الضرُ وأنتَ أرحمُ الراحمين ۞​
​​اے میرے رب! مجھے یہ بیماری لگ گئی ہے اور تو رحم کرنے والوں سے زیاده رحم کرنے واﻻ ہے​​(الأنبياء 21:83)
کیا تم نہیں جانتے کہ اس دعا کے بارے میں اللہ نے کیا فرمایا؟
الله نے فرمایا ہے؛
​۞ فا ستجبنا له وكشفنا ما به من ضر ۞​
​​تو ہم نے اس کی سن لی اور جو دکھ اسے تھا وہ دور کر دیا۔

3- ​مجھے تعجب ہے اس پر جو "خوف" سے آزمایا گیا​، کہ وہ کیسے اس آیت سے غفلت کرتا ہے :
​۞ حسبنا الله ونعم الوكيل ۞​
​​ہمیں اللہ ہی کافی ہے اور وه بہت اچھا کارساز ہے​​
(سورة آل عمران 3:173)
کیا تم نہیں دیکھتے کہ اس پر اللہ نے کیا فرمایا؟
الله فرماتا ہے؛
​۞ فانقلبوا بنعمةٍ من اللهِ وفضلٍ لم يمسسهم سوء۞​
​​(نتیجہ یہ ہوا کہ) وہ اللہ کی نعمت وفضل کے ساتھ لوٹے، انہیں کوئی برائی نہ پہنچی،۔۔۔

4-​مجھے تعجب ہے اس پر جو "لوگوں کے مکر" سے آزمایا گیا​، کہ وہ کیسے اس دعا سے غفلت کرتا ہے:
​۞"وَأُفَوِّضُ أَمْرِي إِلَى اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ بَصِيرٌ بِالْعِبَادِ" ۞​
​​میں اپنا معاملہ اللہ کے سپرد کرتا ہوں، یقیناً اللہ تعالیٰ بندوں کا نگراں ہے​​ (غافر 40:44)
کیا تم نہیں جانتے کہ اس دعا پر اللہ نے کیا جواب دیا؟
اس پر الله نے فرمایا؛
​۞ فوقاهُ اللهُ سيئاتِ ما مكروا۔۔۔۔۔ ۞
​​پس اسے اللہ تعالیٰ نے تمام بدیوں سے محفوظ رکھ لیا جو انہوں نے سوچ رکھی تھیں۔۔

Friday 6 May 2022

ماں اپنے بچوں کی خاطر اپنی جان کی پرواہ تک ...


ماں اپنے بچوں کی خاطر اپنی جان کی پرواہ تک نہیں کرتی
رب کائنات سب کی ماؤں کو سلامت رکھےآمین

عید کا دن اور اتنا مختصر


عید کا دن اور اتنا مختصر 
دن گنے جاتے تھے اس دن کے لئے

Monday 2 May 2022

ہم نے تجھے جانا ہے فقط تیری عطا سے کلام عتیق جاذب

ہم نے تجھے جانا ہے فقط تیری عطا سے

سورج کے اجالوں سے، فضاؤں سے ، خلا سے
چاند اور ستاروں کی چمک اور ضیا سے
جنگل کی خموشی سے، پہاڑوں کی انا سے
پرہول سمندر سے ، پراسرار گھٹا سے
بجلی کے چمکنے سے ، کڑکنے کی صدا سے
مٹی کے خزانوں سے، اناجوں سے، غذا سے
برسات سے، طوفان سے، پانی سے، ہوا سے

ہم نے تجھے جانا ہے فقط تیری عطا سے

گلشن کی بہاروں سے، تو کلیوں کی حیا سے
معصوم سی روتی ہوئی شبنم کی ادا سے
لہراتی ہوئی باد سحر، باد صبا سے
ہر رنگ کے ہر شان کے پھولوں کی قبا سے
چڑیوں کے چہکنے سے تو بلبل کی نوا سے
موتی کی نزاکت سے تو ہیرے کی جلا سے
ہر شے کے جھلکتے ہوئے فن اور کلا سے

ہم نے تجھے جانا ہے فقط تیری عطا سے

دنیا کے حوادث سے ، وفاؤں سے، جفا سے
رنج و غم و آلام سے، دردوں سے، دوا سے
خوشیوں سے، تبسم سے، مریضوں کی شفا سے
بچوں کی شرارت سے تو ماؤں کی دعا سے
نیکی سے، عبادات سے، لغزش سے، خطا سے
خود اپنے ہی سینے کے دھڑکنے کی صدا سے
رحمت تیری ہر گام پہ دیتی ہے دلاسے

ہم نے تجھے جانا ہے فقط تیری عطا سے

ابلیس کے فتنوں سے تو آدم کی خطا سے
اوصاف براہیم سے، یوسف کی حیا سے
اور حضرت ایوب کی تسلیم و رضا سے
عیسیٰ کی مسیحائی سے، موسیٰ کے عصا سے
نمرود کے، فرعون کے انجام فنا سے
کعبہ کے تقدس سے تو مرویٰ و صفا سے
تورات سے، انجیل سے، قرآں کی صدا سے
یٰسین سے، طٰہٰ سے، مزمل سے ، نبا سے
اک نور جو نکلا تھا کبھی غار حرا سے

ہم نے تجھے جانا ہے فقط تیری عطا سے

شاعر:عتیق احمد جاذب