Monday, 16 May 2022

وادی جن کی سائنسی حقیقت


وادی جن کی سائنسی حقیقت
تحریر :مظہر عباس خان 

اس سے قبل کہ میں اس کی سائنسی حقیقت سے آگاہ کروں میں مقناطیسی پہاڑوں (Magnetic Hills) کے بارے میں بتانا چاہوں گا
ان پہاڑوں کو گریویٹی ہلز Gravity Hills بھی کہا جاتا ہے یہ پہاڑ عربی میں تلۃ مغناطیسیۃ کہلاتے ہیں 
مقناطیسی پہاڑوں کو پراسرار پہاڑ بھی کہا جاتا ہے
یہی وہ سیاہی مائل پہاڑ ہیں جو نظروں کو دھوکے میں ڈالتے ہیں اسی کی وجہہ سے التباس بصارت پیدا ہوتی ہے
اس کو انگریزی میںOptical illusion کہا جاتا ہے اس کو عربی میں خداع بصری اور فارسی میں خطا ی دید کہا جاتا ہے
یعنی ان پہاڑوں کی مقناطیسیت کے باعث اشیاء اپنی حقیقی صورت میں نظر نہیں آتیں یعنی یہ علاقہ انسانوں میں فریب نظر پیدا کرتا ہے 

نظروں کو فریب دینے والے یہ پہاڑ صرف وادی جن ہی میں نہیں پائے جاتے بلکہ دنیا کے بہت سارے مقامات پر موجود ہیں
خود ہندوستان کے دو علاقوں میں ایسے پہاڑ موجود ہیں جو نظروں کو فریب میں مبتلا کردیتے ہیں اور سڑک کے در حقیقت ڈھلان کو اونچائی میں ظاہر کرتے ہیں
جس کی وجہہ سے سڑک کا حقیقی ڈھلان بھی اونچا دکھائی دیتا ہے چونکہ اونچی دکھائی دینے والی سڑک پر موٹر گاڑی بند ہونے کے باوجود چڑھتی چلی جاتی ہے اسی لئے اس کو دنیا جنوں کی حرکت قرار دیتی ہے

ہندوستان میں علاقہ لداخ کے مقام لیہہ (Leh) سے تقریباً 50 کلو میٹر دور سمندر سے 11000 فٹ کی اونچائی پر موجود لیہہ کارگل سری نگر ہائی وے پر یہ علاقہ ہے
جہاں انجن کے بند ہونے کے باوجود موٹر گاڑی اونچائی پر چڑھ جاتی ہے اور کچھ لمحوں بعد تیزی اختیار کرکے بھاگنے لگتی ہے

ہندوستان کی ریاست گجرات کے علاقہ تلسی شیام Tulsishyam ضلع امریلی (Amreli)میں بھی گذشتہ برسوں ایسی سڑک دریافت ہوئی ہے جہاں گاڑی کا انجن بند ہونے کے باوجود موٹر گاڑی کشش ثقل کے برخلاف Up Hill پر چڑھنے لگتی ہے

Lake Wales
فلوریڈا میں Spook Hills ہیں جنہیں Magnetic Hills کہا جاتا ہے
اس علاقے میں بھی اشیاء الٹی جانب جاتی ہیں اسی لئے امریکہ کی عوام انہیں بد روحوں کا مسکن یعنی Spook Hill کہتی ہیں

کینڈا میں نیاگرا آبشار کے قریب Ontario کے Burlington میں بھی ایسے پہاڑ واقع ہیں جہاں کی سڑکوں پر موٹر کار الٹی جانب یعنی نشیب سے فراز کی جانب سفر کرتی ہے

رچمنڈ Richmond آسٹریلیا کے Mountain Bowen روڈ پر ایسے پہاڑ موجود ہیں جہاں قدرت کی نشانیوں کو دیکھا جا سکتا ہے تاکہ اس کی خلاقی پر ایمان لا سکیں 
اس سڑک پر صرف 50 میٹر کا علاقہ ہی ایسا ہے جہاں موٹر گاڑی اونچائی کی جانب چلنے لگتی ہے

ان کے علاوہ امریکہ کے علاقہ Shullsburg, Wisconsin کے مقناطیسی پہاڑ، یونان کے MountPenteli اسکاٹ لینڈ کے Electric Brae پہاڑ
مشی گن امریکہ کا Mystery Spot وغیرہ بھی شہرت رکھتے ہیں
دنیا کے سینکڑوں مقامات پر ہمیں ایسے پہاڑ مل جائیں گے جہاں نظروں کا دھوکا حقیقت کو بدل دیتا ہے اور سچ جھوٹ کے پردے میں گم ہو جاتا ہے
جس کی وجہہ سے ڈھلان سڑک بھی اونچی دکھائی دینے لگتی ہے اور عام آدمی کو اچھنبے میں ڈال دیتی ہے
میں یہاں بالخصوص ایک جدید سائنسی تجربے کا ذکر کرون گا جو ہمارے ذہنوں کو کھول کر اس میں حقیقت شناسی کے جذبے کو بھر دیتا ہے

یہ تجربہ عراق کی سلیمانی یونیورسٹی میں کیا گیا
عراق کی ایک ریاست خردستان ہے جہاں کے علاقہ کویا (Koya) میں بھی ایسے پہاڑ موجود ہیں
ان پہاڑوں پر سلیمانی یونیورسٹی کے ریسرچ اسکالر Perykhan M.Jaf نے تحقیق کی
اور ثابت کیا کہ کسی بھی Magnetic Hills کے اطراف موٹر گاڑی کی کشش ثقل کے خلاف محیر العقل حرکت نظروں کا دھوکہ ہے
ان کے پیش کردہ مقالے میں کافی وضاحت سے التباس بصری اور مقناطیسی پہاڑوں کو سمجھایا گیا
اس محقق نے کئی اقسام کے التباس بصری یعنی فریب نظر
کا ذکر بھی کیا ہے جو ہماری عام زندگی سے متعلق ہیں جیسے Illusions of length اور Illusions of shape وغیرہ

مدینہ کی وادی جن عجیب و غریب خوبصورتی رکھنے والی جگہ ہے
گول پہاڑوں سے گھرا ہوا یہ علاقہ زائد از سات میل کے علاقے پر پھیلا ہوا ہے
یعنی اس علاقے کی سات کلو میٹر لمبی سڑک ہمیں فریب نظر میں مبتلا کرتی ہے ایسی خصوصیت رکھنے والی اس قدر لمبی سڑک دنیا کے دوسرے مقامات پر بہت کم دکھائی دیتی ہے
وادی میں سڑک کی آخری حد تک جانے کے لئے موٹر گاڑیاں بڑی زور آزمائی کے ساتھ گذرتی ہیں
یہاں غور کرنے کی بات یہ ہے کہ بہ ظاہر آنکھوں کو ڈھلان دکھائی دینے والی اس سڑک پر موٹر گاڑی یا بس (Bus) کے انجن کو بڑی محنت کرنی پڑتی ہے
جو خود اس بات کا ثبوت ہے کہ ڈھلوان دکھائی دینے والی سڑک در حقیقت ڈھلوان نہیں ہے اور جب وادی کی آخری حد سے یہ بس پلٹتی ہیں تو بس کا ڈرائیور موٹر گاڑی کے انجن کو چالو رکھتاہے
لیکن ایکسلیٹر (Accelerator) سے پاؤں اٹھا لیتا ہے
گاڑی نیوٹرل گیر(Neutral Gear) میں آگے بڑھتی چلی جاتی ہے
یعنی دوسرے الفاظ گاڑی کا انجن بند ہوتا ہے لیکن گاڑی چلتی رہتی ہے
اور یہ یقیناً تعجب خیز بات ہے کہ ایکسلیٹر پر پاؤں کا دباؤ نہ ہونے کے باوجود گاڑی سڑک کے نشیب و فراز میں تیزی سے آگے بڑھتی جاتی ہے رفتہ رفتہ بس (Bus) کی رفتار میں مسلسل اضافہ ہوتا رہتا ہے
یہ خود میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ بس (Bus) کی رفتار ایک مرحلے پر ایک سو پچاس تک پہنچ گئی تھی اور ڈرائیور کے پیر ایکسلیٹر پر رکھے ہوئے نہیں تھے
بلکہ وہ اپنے پیروں کو سکوڑ کرسیٹ پر رکھے ادب سے بیٹھا اسٹیرنگ کنٹرول کر رہا تھا
ہاں کبھی کبھی جب رفتار حد سے بڑھ جاتی تو ڈرائیور کے پیر بریک پر پہنچ جاتے اور وہ گاڑی کے بریک لگا دیتا تاکہ گاڑی قابو میں رہے

نظروں کا دھوکہ Optical illusion دراصل حسی تجربات یا حس کو سمجھنے کی غلطی کا نتیجہ ہیں یعنی دکھائی دینے والی شئے سے متعلق آگاہی (Perception) کی غلطی غیر حقیقی صورت حال کو پیدا کرتی ہے
وادی جن میں بھی انسانی دماغ کی ادراکی صلاحیت حقیقت سے بعید ہوجاتی ہے 
آنکھوں کے ذریعہ حاصل کی جانے والی معلومات کا جب دماغ میں تجزیہ انجام پاتا ہے تو دماغ اور آنکھوں کے مابین کشمکش بصری قوت پر اثر انداز ہوتی ہے
اور ان مقناطیسی پہاڑوں سے نکلتی لہروں کے جلو میں انسان تذبذب کا شکار ہو جاتا ہے

اس کا ادراک صحیح فیصلہ نہیں کرپاتا کہ وہ کیا دیکھ رہا ہے اور وہ بالآخر غلط دیکھنے لگتا ہے
وادی جن میں بھی یہی اصول کارفرما ہے علاوہ اس کے اس علاقے میں پائے جانے والے مقناطیسی پہاڑوں کے پھیلاؤ اور رفعت کے باعث افق (Horizon) واضح نظر نہیں آتا جو انتشار بصری کی اہم وجہہ ہے
Horizon 
یعنی وہ واضح خط جو زمین کو آسمان سے جدا کرتا ہے اسی لئے اس علاقے میں سڑک ڈھلان ہونے کے باوجود بھی اونچائی کی طرف جاتی ہوئی نظر آتی ہے
اس کیفیت سے انسان عجیب عقیدت میں ڈوب جاتا ہے اور ان پہاڑیوں پر اس کو اللہ کے حروف دکھائی دینے لگتے ہیں
کہیں بظاہر ایسا محسوس کرنے لگتا ہے جیسے پتھر سجدہ ریز ہیں 
نظر کے اس دھوکے کو طبعیات کے سادہ اصولوں سے بآسانی سمجھا جاسکتا ہے
ہم زندگی میں نظروں کے دھوکے کی کیفیت سے کئی ایک بار دو چار ہوتے ہیں
جیسے اونچا درخت جو کھڑا ہوا ہے لمبا دکھائی دیتا اگر اسی درخت کو کاٹ کر زمین پر رکھ دیں تو زمین پر رکھا ہوا درخت نسبتاً چھوٹا دکھائی دیتا ہے

جہاں تک وادی جن مدینہ المنور کی بات ہے نہ صرف سائنسداں بلکہ عام افراد نے بھی اس کی حقیقت جاننے کے لئے تجربات کئے ہیں
اگر ہم گوگل ارتھ کے ذریعہ اس علاقے کا مشاہدہ کریں تو ایسی خصوصیت رکھنے والی یہ سڑک تقریباً 7 کلو میٹر لمبی نظر آئے گی
اور ان 7 کلو میٹر فاصلے کے دوران سڑک کے ڈھلان کا زاویہ 11.5 ڈگری ہو گا
اور سڑک کے دونوں حدوں کے بیچ 310 میٹر ڈھلان موجود ہو گا
لیکن واہ رے قدرت کہ اس قدر ڈھلان کے باوجود انسانی آنکھ کو یہ ڈھلان اونچائی بن کر دکھائی دیتا رہتا ہے
اسی لئے ایسی وادیاں یا وادی جن مافوق الفطرت اور پراسرار قوتوں کا مرکز دکھائی دیتی ہیں

No comments:

Post a Comment