Wednesday, 19 December 2018

Toot jaiy na Bharam hont hilaow kese




ٹوٹ جائے نہ بھرم ہونٹ ہلاؤں کیسے
حال جیسا بھی ہے لوگوں کو سناؤں کیسے


خشک آنکھوں سے بھی اشکوں کی مہک آتی ہے
میں تیرے غم کو زمانے سے چھپاؤں کیسے


تیری صورت ہی میری آنکھ کا سرمایہ ہے
تیرے چہرے سے نگاہوں کو ہٹاؤں کیسے


تو ہی بتلا میری یادوں کو بھلانے والے
میں تیری یاد کو اس دل سے بھلاؤں کیسے


پھول ہوتا تو تیرے در پہ سجا بھی رہتا
زخم لے کر تیری دہلیز پہ آؤں کیسے


آئینہ ماند پڑے سانس بھی لینے سے عدیم
اتنا نازک ہو تعلق تو نبھاؤں کیسے


وہ رلاتا ہے رلائے مجھے جی بھر کے عدیم
میری آنکھیں ہے وہ میں اس کو رلاؤں کیسے



No comments:

Post a Comment