آندھی چلی تو نقشِ کفِ پا نہیں ملا
دِل جِس سے مِل گیا تھا ،دوبارہ نہیں ملا
ہم انجمن میں سب کی طرف دیکھتے رہے
اپنی طرح سے کوئی اکیلا نہیں ملا
آواز کو تو کون سمجھتا کہ دُور دُور
خاموشیوں کا درد شناسا نہیں ملا
قدموں کو شوقِ آبلہ پائی تو مل گیا
لیکن بہ ظرفِ وُسعَتِ صحرا نہیں ملا
کنعاں میں بھی نصیب ہُوئی خود رُوئیدَگی
چاکِ قبا کو دستِ زُلیخا نہیں ملا
مہر و وفا کے دشت نوَردو جواب دو
تم کو بھی، وہ غزال مِلا کہ نہیں مِلا
کچّے گھڑے نے جِیت لی ندِّی چَڑھی ہُوئی
مضبوُط کشتیوں کو کنارہ نہیں ملا
مصطفیٰ زیدی
No comments:
Post a Comment