اپنے اعمال پر نظر کی جائے تو خامیاں اور کوتاہیاں بھری پڑی ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ شاید بچاؤ کی کوئی صورت نہیں ہے… ہر طرف سے آلودہ شخصیت لیے ہم زندہ ہیں اور اس پر مستراد یہ زعم بھی کہ ہم بہت خوب ہیں۔ لیکن، دوسری جانب اگر الله تعالیٰ کی رحمت کے بارے میں سوچا جائے تو دل کو ڈھارس ملتی ہے کہ بچاؤ کا امکان بھی ہے اور انعام کے مواقع بھی۔
اور کیوں نہ یہ امید ہو کہ خود الله کے پیارے محبوب جنہیں الله نے رحمت للعالمین فرمایا، کہتے ہیں کہ الله تعالیٰ نے اپنی رحمت کے سو حصے بنا کر ننانوے حصے اپنے پاس رکھے اور ایک حصہ زمین پر نازل فرمایا۔ مخلوق کی آپسی شفقتیں اور مہر بانیاں اسی ایک حصے کی بدولت ہیں۔ حتی کہ گھوڑی جو اپنے بچے پر سے پاؤں ہٹالیتی ہے کہ کہیں اسے تکلیف نہ ہو ، یہ بھی اسی ایک حصہ رحمت کی وجہ سے ہے ۔ یہی رحمت پوری دنیا اور اہل دنیا کو گھیرے ہوئے ہے۔ قیامت کے روز الله تعالیٰ اپنی رحمت کے باقی ننانوے حصوں کو بھی ملالیں گے۔
یہ محبوب الہٰی اور محبوب امت حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم کا خاص کرم ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے الله تعالیٰ کی رحمت کا ذکر ہم سے فرما دیا ورنہ ہم تو شاید مایوسی میں گھٹ گھٹ کر خود کو مار ڈالتے۔ علمائے حق فرماتے ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ و سلم نے اتنی اہمیت سے الله تعالیٰ کی رحمت کا ذکر اس لیے فرمایا کہ اس کے بندے الله کے اس اقدام پر الله کی حمد وثنا اور شکر کریں اور اعمالِ صالحہ اپنائیں، کیوں کہ جو شخص واقعی الله کی رحمت کا امید وار ہوتا ہے ، وہ اعمال صالحہ میں خوب محنت کرتا ہے تاکہ ان اعمال صالحہ کے ذریعے الله کی رحمت کو حاصل کرسکے۔
جب الله تعالیٰ نے اتنا رحم فرما دیا کہ ہمیں مایوسی سے نکال کر ہماری زندگی میں امید پیدا کر دی تو اب یہ ہماری ذمے داری ہے کہ الله تعالیٰ کی رحمت کو زیادہ سے زیادہ وصول کرنے کی کوشش کریں۔
وصول رحمت کا سب سے سادہ اور آسان طریقہ یہ ہے کہ ہم الله کی چاہت کے مطابق اپنی زندگی گزاریں۔ اور الله کی چاہت، نبی صلی الله علیہ وسلم کی سنت میں موجود ہے۔ مجھے کہنے دیجیے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی سنت براہ راست الله کی توجہ کووصول کرتی ہے ۔ عملی زندگی میں تجربہ کرکے دیکھ لیجیے۔ اس کے برعکس، سنت سے دوری الله کی رحمت کو دور کرتی ہے اور اس کا تجربہ بھی آپ اپنی زندگی میں کرسکتے ہیں۔
زندگی میں سنتیں اختیار کرتے جائیے، الله کی رحمت بھی وصول کرتے جائیے، زندگی بہتر سے بہتر اور قیمتی بنتی جائے گی۔
No comments:
Post a Comment