راہ آسان ہو گئی ہو گی
جان پہچان ہو گئی ہو گی
موت سے تیرے درد مندوں کی
مشکل آسان ہو گئی ہو گی
پھر پلٹ کر نگہ نہیں آئی
تجھ پہ قربان ہو گئی ہو گی
تیری زلفوں کو چھیڑتی تھی صبا
خود پریشان ہو گئی ہو گی
اُن سے بھی چھین لو گے یاد اپنی
جِن کا ایمان ہو گئی ہو گی
دل کی تسکین پوچھتے ہیں آپ
ہاں مری جان ہو گئی ہو گی
مرنے والوں پہ سیف حیرت کیوں
موت آسان ہو گئی ہو گی
No comments:
Post a Comment