میں خیال ہوں کِسی اور کا
مجھے سوچتا کوئی اور ہے
سرِ آئینہ مِرا عکس ہے،
پسِ آئینہ کوئی اور ہے
میں کِسی کے دستِ طلب میں ہوں
نہ کسی کے حرفِ دعا میں ہوں
میں نصیب ہوں کِسی اور کا
مجھے مانگتا کوئی اور ہے
جو وہ لوٹ آئیں تو پوچھنا نہیں
دیکھنا انہیں غور سے
جنہیں راہ میں یہ خبر ملی
کہ یہ راستہ کوئی اور ہے
مِری روشنی
تِرے خد و خال سے مختلف تو نہیں مگر
تو قریب آ تجھے دیکھ لوں
تُو وہی ہے یا کوئی اور ہے
تجھے دُشمنوں کی خبر نہ تھی
مجھے دوستوں کا پتہ نہیں
تِری داستاں کوئی اور تھی،
مِرا واقعہ کوئی اور ہے
سلیمؔ کوثر
No comments:
Post a Comment