چہرے پہ اپنا دَستِ کرَم پھیرتی ہوئی
ماں رو پڑی ہے سَر کو مرے چُومتی ہوئی
اب کتنے دن رہو گے مرے پاس تُم یہاں
تھکتی نہیں ہے مُجھ سے یہی پُوچھتی ہوئی
رہتی ہے جاگتی وہ مری نیند کے لئے
بچوں کو مُجھ سے دُور پرے روکتی ہوئی
بے چین ہے وہ کیسے مرے چین کے لئے
آتے ہوئے دنوں کا سفر سوچتی ہوئی
کہتی ہے کیسے کٹتی ہے پردیس میں تری
آنکھوں سے اپنے اَشکِ رواں پونجھتی ہوئی
ہر بار پُوچھتی ہے کہ کس کام پر ہو تُم
فخریؔ وہ سخت ہاتھ مرے دیکھتی ہوئی
No comments:
Post a Comment