Tuesday, 29 August 2023

پہلے دل کو آس دلا کر بے پروا ہو جاتا تھا

کتنے موسم سرگرداں تھے مجھ سے ہاتھ ملانے میں 
میں نے شاید دیر لگا دی خود سے باہر آنے میں 

ایک نگاہ کا سناٹا ہے اک آواز کا بنجر پن 
میں کتنا تنہا بیٹھا ہوں قربت کے ویرانے میں 

آج اس پھول کی خوشبو مجھ میں پیہم شور مچاتی ہے 
جس نے بے حد عجلت برتی کھلنے اور مرجھانے میں 

ایک ملال کی گرد سمیٹے میں نے خود کو پار کیا 
کیسے کیسے وصل گزارے ہجر کا زخم چھپانے میں 

جتنے دکھ تھے جتنی امیدیں سب سے برابر کام لیا 
میں نے اپنے آئندہ کی اک تصویر بنانے میں 

ایک وضاحت کے لمحے میں مجھ پر یہ احوال کھلا 
کتنی مشکل پیش آتی ہے اپنا حال بتانے میں 

پہلے دل کو آس دلا کر بے پروا ہو جاتا تھا 
اب تو عزمؔ بکھر جاتا ہوں میں خود کو بہلانے میں 

عزم بہزاد

No comments:

Post a Comment