یا مجھے افسر شاہانہ بنایا ہوتا
یا مرا تاج گدایانہ بنایا ہوتا
اپنا دیوانہ بنایا مجھے ہوتا تو نے
کیوں خرد مند بنایا نہ بنایا ہوتا
خاکساری کے لیے گرچہ بنایا تھا مجھے
کاش خاک در جانانہ بنایا ہوتا
نشۂ عشق کا گر ظرف دیا تھا مجھ کو
عمر کا تنگ نہ پیمانہ بنایا ہوتا
دل صد چاک بنایا تو بلا سے لیکن
زلف مشکیں کا ترے شانہ بنایا ہوتا
صوفیوں کے جو نہ تھا لائق صحبت تو مجھے
قابل جلسۂ رندانہ بنایا ہوتا
تھا جلانا ہی اگر دورئ ساقی سے مجھے
تو چراغ در مے خانہ بنایا ہوتا
شعلۂ حسن چمن میں نہ دکھایا اس نے
ورنہ بلبل کو بھی پروانہ بنایا ہوتا
روز معمورۂ دنیا میں خرابی ہے ظفرؔ
ایسی بستی کو تو ویرانہ بنایا ہوتا
No comments:
Post a Comment