Saturday, 22 June 2019

Abhi es taraf na nigah kar main ghazal ki palkein sanwar loon



ابھی اس طرف نہ نگاہ کر میں غزل کی پلکیں سنوار لوں
مرا لفظ لفظ ہو آئینہ تجھے آئنے میں اتار لوں

میں تمام دن کا تھکا ہوا تو تمام شب کا جگا ہوا
ذرا ٹھہر جا اسی موڑ پر تیرے ساتھ شام گزار لوں

اگر آسماں کی نمائشوں میں مجھے بھی اذن قیام ہو
تو میں موتیوں کی دکان سے تری بالیاں ترے ہار لوں

کہیں اور بانٹ دے شہرتیں کہیں اور بخش دے عزتیں
مرے پاس ہے مرا آئینہ میں کبھی نہ گرد و غبار لوں

کئی اجنبی تری راہ میں مرے پاس سے یوں گزر گئے
جنہیں دیکھ کر یہ تڑپ ہوئی ترا نام لے کے پکار لوں



No comments:

Post a Comment