Saturday, 9 July 2022

یوں وہ محفل میں بصد شان بنے بیٹھے ہیں

یوں وہ محفل میں بصد شان بنے بیٹھے ہیں 
میرا دل اور مری جان بنے بیٹھے ہیں 

ان کی صورت نکھر آئی پس زینت کیا کیا 
دیدۂ خلق کا ارمان بنے بیٹھے ہیں 

جن کو آداب تک آتے نہیں دربانی کے 
آج اس در پہ وہ دربان بنے بیٹھے ہیں 

مجھ کو دیکھا تو غضب ناک ہوئے ٹوٹ پڑے 
کیا خبر تھی کہ وہ طوفان بنے بیٹھے ہیں 

جو ہیں سلطان وہ پھرتے ہیں گداؤں کی طرح 
جو گداگر ہیں وہ سلطان بنے بیٹھے ہیں 

محفل ناز میں بلوا بھی لیا ہے مجھ کو 
اور پھر مجھ سے وہ انجان بنے بیٹھے ہیں 

اہل دل پر وہ غصہ ہے نہ وہ قہر و ستم 
خیر سے آج وہ انسان بنے بیٹھے ہیں 

دیکھتے ہی نہیں قصداً وہ ہماری جانب 
جان کر ہم سے وہ انجان بنے بیٹھے ہیں 

اے نصیرؔ ان کو سر بزم ذرا دیکھو تو 
اک تماشہ کا وہ عنوان بنے بیٹھے ہیں

No comments:

Post a Comment