Tuesday, 19 July 2022

ay muhabbat tere anjam pe rona aya

اے محبت ترے انجام پہ رونا آیا 
جانے کیوں آج ترے نام پہ رونا آیا 

یوں تو ہر شام امیدوں میں گزر جاتی ہے 
آج کچھ بات ہے جو شام پہ رونا آیا 

کبھی تقدیر کا ماتم کبھی دنیا کا گلہ 
منزل عشق میں ہر گام پہ رونا آیا 

مجھ پہ ہی ختم ہوا سلسلۂ نوحہ گری 
اس قدر گردش ایام پہ رونا آیا 

جب ہوا ذکر زمانے میں محبت کا شکیلؔ 
مجھ کو اپنے دل ناکام پہ رونا آیا

شکیل بدایونی

Saturday, 9 July 2022

بے خُود کِیے دیتے ہیں اَندازِ حِجَابَانَہ​

بے خُود کِیے دیتے ہیں اَندازِ حِجَابَانَہ​
آ دِل میں تُجھے رکھ لُوں اے جلوہ جَانَانَہ​
کِیوں آنکھ مِلائی تِھی کیوں آگ لگائی تِھی​
اب رُخ کو چُھپا بیٹھے کر کے مُجھے دِیوانہ​
اِتنا تو کرم کرنا اے چِشمِ کریمانہ​
جب جان لبوں پر ہو تُم سامنے آ جانا​
اب موت کی سختِی تو برداشت نہیں ہوتِی​
تُم سامنے آ بیٹھو دم نِکلے گا آسانہ​
دُنیا میں مُجھے اپنا جو تُم نے بنایا ہے​
محشر میں بِھِی کہہ دینا یہ ہے مرا دیوانہ​
جاناں تُجھے مِلنے کی تدبِیر یہ سوچِی ہے​
ہم دِل میں بنا لیں گے چھوٹا سا صنم خانہ​
میں ہوش حواس اپنے اِس بات پہ کھو بیٹھا​
تُو نے جو کہا ہنس کے یہ ہے میرا دیوانہ​
پینے کو تو پِی لُوں گا پر عَرض ذرّا سی ہے​
اجمیر کا ساقِی ہو بغداد کا میخانہ​
کیا لُطف ہو محشر میں شِکوے میں کیے جاوں​
وہ ہنس کے یہ فرمائیں دیوانہ ہے دیوانہ​
جِی چاہتا ہے تحفے میں بھِیجُوں اُنہیں آنکھیں​
درشن کا تو درشن ہو نذرانے کا نذرانَہ​
بیدمؔ میری قِسمت میں سجدے ہیں اُسِی دّر کے​
چُھوٹا ہے نہ چُھوٹے گا سنگِ درِّ جَانَانَہ​

کلام: بیدمؔ شاہ وارثی

یوں وہ محفل میں بصد شان بنے بیٹھے ہیں

یوں وہ محفل میں بصد شان بنے بیٹھے ہیں 
میرا دل اور مری جان بنے بیٹھے ہیں 

ان کی صورت نکھر آئی پس زینت کیا کیا 
دیدۂ خلق کا ارمان بنے بیٹھے ہیں 

جن کو آداب تک آتے نہیں دربانی کے 
آج اس در پہ وہ دربان بنے بیٹھے ہیں 

مجھ کو دیکھا تو غضب ناک ہوئے ٹوٹ پڑے 
کیا خبر تھی کہ وہ طوفان بنے بیٹھے ہیں 

جو ہیں سلطان وہ پھرتے ہیں گداؤں کی طرح 
جو گداگر ہیں وہ سلطان بنے بیٹھے ہیں 

محفل ناز میں بلوا بھی لیا ہے مجھ کو 
اور پھر مجھ سے وہ انجان بنے بیٹھے ہیں 

اہل دل پر وہ غصہ ہے نہ وہ قہر و ستم 
خیر سے آج وہ انسان بنے بیٹھے ہیں 

دیکھتے ہی نہیں قصداً وہ ہماری جانب 
جان کر ہم سے وہ انجان بنے بیٹھے ہیں 

اے نصیرؔ ان کو سر بزم ذرا دیکھو تو 
اک تماشہ کا وہ عنوان بنے بیٹھے ہیں

Friday, 8 July 2022

نہ ہوتا در محمدؐ کا تو دیوانے کہاں جاتے

نہ ہوتا در محمدؐ کا تو دیوانے کہاں جاتے
خدا سے اپنے دل کی بات منوانے کہاں جاتے

جنہیں عشقِ محمدؐ نے کیا ادراک سے بالا
حقیقت اِن تمنّاؤں کی سمجھانے کہاں جاتے

خدا کا شُکر ہے یہ، حجرِ اسود تک رسائی ہے
جنہیں کعبے سے نِسبت ہے وہ بُتخانے کہاں جاتے

اگر آتی نہ خوشبوئے مدینہ آنکھوں سے
جو مرتے ہیں نہ جلتے ہیں وہ پروانے کہاں جاتے

سِمٹ آئے میری آنکھوں میں حُسنِ زندگی بن کر
شرابِ درد سے مخمور نذرانے کہاں جاتے

چلو اچھا ہوا ہے نعتِ ساغرؔ کام آئی
غلامانِ نبیؐ محشر میں پہچانے کہاں جاتے

ساغر صدیقی

اتنی مدت بعد ملے ہو

اتنی مدت بعد ملے ہو 
کن سوچوں میں گم پھرتے ہو 

اتنے خائف کیوں رہتے ہو 
ہر آہٹ سے ڈر جاتے ہو 

تیز ہوا نے مجھ سے پوچھا 
ریت پہ کیا لکھتے رہتے ہو 

کاش کوئی ہم سے بھی پوچھے 
رات گئے تک کیوں جاگے ہو 

میں دریا سے بھی ڈرتا ہوں 
تم دریا سے بھی گہرے ہو 

کون سی بات ہے تم میں ایسی 
اتنے اچھے کیوں لگتے ہو 

پیچھے مڑ کر کیوں دیکھا تھا 
پتھر بن کر کیا تکتے ہو 

جاؤ جیت کا جشن مناؤ 
میں جھوٹا ہوں تم سچے ہو 

اپنے شہر کے سب لوگوں سے 
میری خاطر کیوں الجھے ہو 

کہنے کو رہتے ہو دل میں 
پھر بھی کتنے دور کھڑے ہو 

رات ہمیں کچھ یاد نہیں تھا 
رات بہت ہی یاد آئے ہو 

ہم سے نہ پوچھو ہجر کے قصے 
اپنی کہو اب تم کیسے ہو 

محسنؔ تم بدنام بہت ہو 
جیسے ہو پھر بھی اچھے ہو 

محسن نقوی

شام سے آنکھ میں نمی سی ہے

شام سے آنکھ میں نمی سی ہے
آج پھر آپ کی کمی سی ہے

دفن کردو ہمیں کہ سانس ملے
نبض کچھ دیر سے تھمی سی ہے

کون پتھرا گیا ہے آنکھوں میں
برف پلکوں پہ کیوں جمی سی ہے

وقت رہتا نہیں کہیں ٹک کر
اس کی عادت بھی آدمی سی ہے

کوئی رشتہ نہیں رہا پھر بھی
ایک تسلیم لازمی سی ہے

آئیے راستے الگ کر لیں
یہ ضرورت بھی باہمی سی ہے
گلزار

ملنے کی کوئی آس نہ شدت ہوا کرے

ملنے کی کوئی آس  نہ  شدت  ہوا کرے 
ایسی   محبتوں  پر   لعنت  ہوا  کرے ۔

ہم  مانتے نہیں  ترے  لفظوں  کے  کرب کو 
 پیلی  ذرا  جدائی  میں  رنگت  ہوا  کرے 

کوئی سکیل ہو  کوئی  پیما نہ  کاش  ہو 
 جس میں  بیان  پیار  کی وقعت  ہوا  کرے

اٹھتے ہوں جب قدم کسی انگلی کو تھام کر 
اس  موڑ  پر  نہ  کوئی بھی رخصت  ہوا کرے

ايام  ہجر میں جسے  پڑھ  پڑھ کے دم کروں 
کوئی  تو  ایسی صبر  کی آیت  ہوا  کرے

ماضی  اٹھا کے پھینک  دو کوڑے  کے ڈھیر پر 
آنکھوں  کو  جس کی یاد سے  وحشت  ہوا کرے

یہ تو نہیں کہوں گی کہ مر جا ئے  میرے  بن 
ہنسنے  میں بس کبھی  کبھی  دقت  ہوا   کرے  ۔

فوزیہ شیخ

پوچھتا ہے نہ مجھے بات بتاتا ہے کوئی

پوچھتا ہے نہ مجھے بات بتاتا ہے کوئی
اجنبی ہونے کا احساس دلاتا ہے کوئی

کیا خبر کون سی دنیا کا سفر کرنا ہے
خواب در خواب مجھے پاس بلاتا ہے کوِئی

بھیگے رستوں پہ ترے ساتھ ٹہلنا تھا مجھے
ایسے موسم میں بھلا چھوڑ کے جاتا ہے کوئی

کبھی ہوتا تھا طبیعت میں وہ بے ساختہ پن
اب تکلف میں تعلق کو نبھاتا ہے کوئی

شعر کہتا ہوں تو پیغام پہنچ جاتا ہے
مجھ سے ملنے کے لیے دور سے آتا ہے کوئی

کاشف غلام رسول

یہ دل بھُلاتا نہیں ہے محبتیں اُس کی

یہ دل بھُلاتا نہیں ہے محبتیں اُس کی
پڑی ہُوئی تھیں مُجھے کِتنی عادتیں اُس کی

یہ میرا سارا سَفر اُس کی خوشبوؤں میں کٹا
مجھے تو راہ دکھاتی تھیں چاہتیں اُس کی

گِھری ہُوئی ہوں میں چہروں کی بھیڑ میں لیکن
کہیں نظر نہیں آتیں شباہتیں اُس کی

مَیں دُور ہونے لگی ہوں تو ایسا لگتا ہے
کہ چھاؤں جیسی تھیں مجھ پر رفاقتیں اُس کی

یہ کِس گلی میں یہ کِس شہر میں نِکل آئے
کہاں پہ رہ گئیں لوگو صداقتیں اُس کی

میں بارشوں میں جُدا ہو گئی ہوں اُس سے مگر
یہ میرا دل، مِری سانسیں امانتیں اُس کی

نوشی گیلانی

تُو چاہتا ہے کسی اور کو پتا نہ لگے

تُو چاہتا ہے کسی اور کو پتا نہ لگے
میں تیرے ساتھ پھروں اور مجھے ہوا نہ لگے

تمہارے تک میں بہت دل دکھا کے پہنچا ہوں
دعا کرو کہ مجھے کوئی بددعا نہ لگے

تجھے تو چاہیے ہے، اور ایسا چاہیے ہے
جو تجھ سے عشق کرے اور مبتلا نہ لگے

میں تیرے بعد کوئی تیرے جیسا ڈھونڈتا ہوں
جو بے وفائی کرے، اور بے وفا نہ لگے

میں اس لیے بھی اداسی میں ہنسنے لگتا ہوں
کہ مجھ میں اور کسی شخص کی فضا نہ لگے

ہزار عشق کرو، لیکن اتنا دھیان رہے
کہ تم کو پہلی محبت کی بددعا نہ لگے

عباس تابش
#urdushayari 
#urdupoetry 
#اردوشاعرئ 
#محبت_شاعری 

Monday, 4 July 2022

تر آنکھوں میں کوئی خواب سجایا نہیں گیا


تر آنکھوں میں کوئی خواب سجایا نہیں گیا
اِک وعدہ جو چاہ کر بھی نبھایا نہیں گیا

اور وہ بھی چُپ رہا جہاں والوں کے ڈر سے
خیر ہم سے بھی سچ بتایا نہیں گیا۔۔۔ 

#urdupoetry
#urdu
#UrduAdabShayari

اے دل کہیں سے ان کو ایسے میں ڈھونڈ لانا

موسم ہے عاشقانہ
اے دل کہیں سے ان کو ایسے میں ڈھونڈ لانا

کہنا کہ رُت جواں ہے اور ہم ترس رہے ہیں
کالی گھٹا کے سائے بِرہن کو ڈس رہے ہیں
ڈر ہے نہ مار ڈالے، ساون کا کیا ٹھکانہ
موسم ہے عاشقانہ

سورج کہیں بھی جائے تم پر نہ دھوپ آئے
تم کو پکارتے ہیں ان گیسوؤں کے سائے
آجاؤ، میں بنا دوں، پلکوں کا شامیانہ
موسم ہے عاشقانہ

پھرتے ہیں ہم اکیلے، بانہوں میں کوئی لے لے
آخر کوئی کہاں تک تنہائیوں سے کھیلے
دن ہو گئے ہیں ظالم، راتیں ہیں قاتلانہ
موسم ہے عاشقانہ

یہ رات، یہ خموشی، یہ خواب سے نظارے
جگنو ہیں یا زمیں پر اترے ہوئے ہیں تارے
بے خواب میری آںکھیں، مدہوش ہے زمانہ
موسم ہے عاشقانہ

اے دل کہیں سے ان کو ایسے میں ڈھونڈ لانا
موسم ہے عاشقانہ

sad urdu poetry collection 4


بچھڑ کے تجھ سے کبھی پھر نہیں کہا ہم نے 
ہمارے پاس خدا کا دیا بہت کچھ ہے

~~~

مجھ سے ناراض نہ ہو دیکھ میری آنکھوں میں
تُو مری جان ہے اور جان بھی پیاری والی !

~~~

بھری رہے ابھی آنکھوں میں اس کے نام کی نیند
وہ خواب ہے تو یونہی دیکھنے سے گزرے گا

~~~

وہ نہیں ہے تو ہستیِ عالم کا
'سارا منظر اداس لگتا ہے

~~~

وہ اتنی پیچیدہ نہیں ہے جتنا تم سمجھتے ہو 
وه لمبے سفر کی ایک مخلص ساتھی ہے

~~~

گلاب زادی تمہاری ہنسی سیاہ آسمان پر
 کسی ستارے کی نوید جیسی ہے 
مسکرایا کرو
 تاکہ پھول حسد کریں!!

تُم جس خواب میں آنکھیں کھولو
اُس کا رُوپ امر

تُم جس رنگ کا کپڑا پہنو
وہ موسم کا رنگ ہو

تُم جس پھول کو ہنس کر دیکھو
کبھی نہ مُرجھائے وہ .. 

تُم جس حرف پہ انگلی رکھ دو
وہ روشن ہو جائے.. !