اک پل کی تھی بس حکومت یزید کی
صدیاں حسینؑ کی ہیں، زمانہ حسینؑ کا۔۔۔
نشہ اتر جاتا ہے لیکن یہ خماری نہیں جاتی
محبت قصداً کبھی دل میں اتاری نہیں جاتی
کہیں برسے تو کہیں گرجے ہم ایسے بادل نہیں
یہ ست رنگی روپ ہم سے دھاری نہیں جاتی
ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﺍﻭﻧﭽﺎ ﺗﺮﺍ ﻗﺪ ﮨﮯ، ﺣﺪ ﮨﮯ
ﭘﮭﺮ ﺑﮭﯽ ﺳﯿﻨﮯ ﻣﯿﮟ ﺣﺴﺪ ﮨﮯ؟ ﺣﺪ ﮨﮯ
ﻣﯿﺮﮮ ﺗﻮ ﻟﻔﻆ ﺑﮭﯽ ﮐﻮﮌﯼ ﮐﮯ ﻧﮩﯿﮟ
ﺗﯿﺮﺍ ﻧﻘﻄﮧ ﺑﮭﯽ ﺳﻨﺪ ﮨﮯ، ﺣﺪ ﮨﮯ
ﺗﯿﺮﯼ ﮨﺮ ﺑﺎﺕ ﮨﮯ ﺳﺮ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﭘﺮ
ﻣﯿﺮﯼ ﮨﺮ ﺑﺎﺕ ﮨﯽ ﺭﺩ ﮨﮯ، ﺣﺪ ﮨﮯ
ﻋﺸﻖ ﻣﯿﺮﯼ ﮨﯽ ﺗﻤﻨﺎ ﺗﻮ ﻧﮩﯿﮟ
ﺗﯿﺮﯼ ﻧﯿﺖ ﺑﮭﯽ ﺗﻮ ﺑﺪ ﮨﮯ، ﺣﺪ ﮨﮯ
ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﻮ ﮨﮯ ﺿﺮﻭﺭﺕ ﻣﯿﺮﯼ
ﺍﻭﺭ ﺿﺮﻭﺭﺕ ﺑﮭﯽ ﺍﺷﺪ ﮨﮯ، ﺣﺪ ﮨﮯ
ﺑﮯ ﺗﺤﺎﺷﮧ ﮨﯿﮟ ﺳﺘﺎﺭﮮ ﻟﯿﮑﻦ
ﭼﺎﻧﺪ ﺑﺲ ﺍﯾﮏ ﻋﺪﺩ ﮨﮯ، ﺣﺪ ﮨﮯ
ﺍﺷﮏ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﺳﮯ ﯾﮧ ﮐﮩﮧ ﮐﺮ ﻧﮑﻼ
ﯾﮧ ﺗﺮﮮ ﺿﺒﻂ ﮐﯽ ﺣﺪ ﮨﮯ؟ ﺣﺪ ﮨﮯ
ﺭﻭﮎ ﺳﮑﺘﮯ ﮨﻮ ﺗﻮ ﺭﻭﮐﻮ ﺟﺎﺫﻝؔ
ﯾﮧ ﺟﻮ ﺳﺎﻧﺴﻮﮞ ﮐﯽ ﺭﺳﺪ ﮨﮯ، ﺣﺪ ﮨﮯ
ہم کریں بات دلیلوں سے تو رد ہوتی ہے
اسکے ہونٹوں کی خموشی بھی سند ہوتی ہے
کچھ نہ کہنے سے بھی چھن جاتا ہے اعزازے سُخن
ظُلم سہنے سے بھی ظالم کی مدد ہوتی ہے
سانس لیتے ہوئے انسان بھی ہیں لاشوں کی طرح
اب دھڑکتے ہوئے دل کی بھی لحد ہوتی ہے
وہ دستیاب مجھ کو بڑی دیر تک رہا
میں انتخاب اُس کا بڑی دیر تک رہا
پہلے پہل تو عشق کے آداب یہ بھی تھے
میں "آپ" وہ "جناب" بڑی دیر تک رہا
اک عمر تک میں اس کو بڑا قیمتی لگا
میں اہم تھا، یہ وہم تھا، بڑی دیر تک رہا