تم سرِ حشر ملو گے یہ سنا ہے جب سے
تیرے دیوانوں نے اک حشر اٹھا رکھا ہے
~~~
نصیر ان کو اپنا بنا لیں گے ہم
کوئی صورت تو نکلے ملاقات کی
~~~
آ کہ سجادہ نشیں قیس ہوا میرے بعد
نہ رہی دشت میں خالی کوئی جا میرے بعد
~~~
سنتا ہوں سرنگوں تھے فرشتے میرے حضور
میں جانے اپنی ذات کے کس مرحلے میں تھا
~~~
سمیٹ کر اپنی زلفوں کو
اس نے بارش ملتوی کردی
~~~
سالہا سال تجھے وِرد میں رکھا میں نے
میرے ہونٹوں پہ تیرے نام کے چھالے ہوں گے
~~~
جن کی خاموشیاں قیامت ھو
حشر ان کے بیاں سے ہی اٹھتا ھے
~~~
ریت ہی ریت ہے اِس دل میں مسافر میرے
اور یہ صحرا تیرا نقشِ کفِ پا چاہتا ہے
~~~
اس عشق کی منزل میں قدم سوچ کر رکھنا
دریائے محبت کے کنارے نہیں ہوتے
~~~
میں محبت کی بارگاہ میں ہوں
خوشبُو میرا طواف کرتی ہے
~~~
رچا ہوا ہے تیرا عشق میری پوروں میں
میں اس خمار سے نکلوں تو اور کچھ سوچوں
یہ میرا جسم کہ ماتم سرائے حسرت ہے
میں اس مزار سے نکلوں تو اور کچھ سوچوں
میں اس حصار سے نکلوں تو اور کچھ سوچوں
تمہارے پیار سے نکلوں تو اور کچھ سوچوں
~~~~
جو تم اخلاص چاہو تو ﻓﺮﺷﺘﻮﮞ ﺳﮯ ﻧﺒﺎﮦ ﮐﺮ ﻟﻮ
ﻣﯿﮟ ﺁﺩﻡ ﮐﯽ ﻧﺸﺎﻧﯽ ﮨﻮﮞ، ﻣﺠﮭﮯ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﺭﮨﻨﮯ ﺩو۔
ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﮐﮩﮑﺸﺎﺅﮞ ﻣﯿﮟ، ﻣﯿﺮﯼ ﮐﻮﺋﯽ ﺟﮕﮧ ﮐﺐ ﺗﮭﯽ
ﻣﯿﮟ ﺍﮎ ﺍﺟﮍﺍ ﺟﺰﯾﺮﮦ ﮨﻮﮞ، ﻣﺠﮭﮯ ﻭﯾﺮﺍﻥ ﺭﮨﻨﮯ ﺩﻭ۔
ﺟﻮ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﻭﮨﯽ ﮐﺮﻧﺎ، ﻧﮧ ﺑﺪﻟﻮ ﺭﺳﻢِ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﻮ
ﻭﮦ ﺗﻢ ﺗﮭﮯ ﯾﺎ ﮐﻮﺋﯽ ﺍﭘﻨﺎ، ﻣﺠﮭﮯ ﺣﯿﺮﺍﻥ ﺭﮨﻨﮯ ﺩﻭ۔
ﻣﯿﺮﺍ ﺩﻝ ﯾﻭﮞ شکستہ ﮨﮯ، ﮐﻮﺋﯽ ﺍﺟﮍﺍ ﺳﺎ ﻣﻨﺪﺭ ﮨﻮ
ﻣﺠﮭﮯ ﻭﺣﺸﺖ ﮨﮯ ﺭﻭﻧﻖ ﺳﮯ، ﻣﺠﮭﮯ ﺳﻨﺴﺎﻥ ﺭﮨﻨﮯ ﺩﻭ۔
ﺧﺪﺍ ﮐﮯ ﮐﺎﺭﺧﺎﻧﮯ ﻣﯿﮟ، ﺑُﺮﺍ ﮐﭽﮪ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﺎ
ﺧﺪﺍﺭﺍ ﮨﻮﺵ ﻣﯿﮟ ﺁﺅ، ﮐﻮﺋﯽ ﺍﻣﮑﺎﻥ ﺭﮨﻨﮯ ﺩﻭ
~~~
میرے محبوب مجھے خبر ملی ہے کہ تو آج رات کو آئے گا
میر ا سراُس راہ پر قربان جس راہ پر تو سواری کرتا آئے گا
میری جان ہونٹوں پر آگئی ہے ، تو آجا کہ میں زندہ رہوں
پھر جب میں نہ رہوں گا تو کس کام کے لئے آئے گا
تیری جدائی کا غم اور دکھ بس میں ہی جانتا ہوں
جس دن تو پہلو میں آئے گا سب غم بھلا دوں گا
دل و جان چھین کر لے گیئں ہیں تیر ی دو آنکھیں اپنے دانوں سے
اب دونوں جہان داو پر لگ جائیں اگر تو قمار بازی پر آئے
عشق کی کشش بے اثر نہیں ہوتی
جنازہ پر نہ سہی مزار پر تو آئے گا
صحرا کے ہرن اپنے ہاتھوں میں اپنا سر اٹھا کے پھر رہے ہیں
اس امید پر کے تو کسی روز شکار کے لئے آئے گا
تیری ایک آمد پر خسرو کے دل وجان دین دنیا چلے گئے
کیا ہو گا جب اسی طرح دو تین با ر آئے گا
~~~
ساقی مجھے شباب کا رسیا کہے سُو ہوں
میں خود سے بے نیاز ہوں، جیسا کہے سُو ہوں
۔
میری ہوس کے اندروں محرومیاں ہیں دوست
واماندہ ِ بہار ہوں، گھٹیا کہے سُو ہوں
۔
اب میں کسی کی سوچ بدلنے سے تو رہا
یہ شہر ِ بدگماں مجھے شیدا کہے، سُو ہوں
۔
تُو ہی بتا میں اپنی صفائی میںکیا کہوں
تُو بات بات میں مجھے جھوٹا کہے، سُو ہوں
۔
دانش خوداحتسابی کا مجھ میں نہیں دماغ
مُنہ پھٹ ہوں بدمزاج ہوں، دنیا کہے سو ہوں
~~~
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں ہر کام کرنے میں
ضروری بات کہنی ہو کوئی وعدہ نبھانا ہو
اسے آواز دینے ہو، اسے واپس بلانا ہو
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں
مدد کرنی ہو اس کی، یار کی ڈھارس بندھانا ہو
بہت دیرینہ رستوں پر کسی سے ملنے جانا ہو
بدلتے موسموں کی سیر میں دل کو لگانا ہو
کسی کو یاد رکھنا ہو، کسی کو بھول جانا ہو
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں
کسی کو موت سے پہلے کسی غم سے بچانا ہو
حقیقت اور تھی کچھ اس کو جا کے يہ بتانا ہو
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں
~~~
مجھےاپنے ضبط پہ ناز تھا،سر بزم رات یہ کیا ہوا۔
میری آنکھ کیسے چھلک گئی،مجھے رنج ہے یہ برا ہوا۔
میری زندگ کےچراغ کا یہ مزاج کوئ نیا نہیں
ابھی روشنی،ابھی تیرگی،نہ جلا ہوا نہ بجھا ہوا۔
مجھے جوبھی دشمن جاں ملا،وہی پختہ کار جفا ملا۔
نہ کسی کی ضرب غلط پڑی ،نہ کسی کا تیر خطا ہوا
~~~