غَم ہے یا خُوشی ہے تُو
میری زندگی ہے تُو
آفتوں کے دَور میں
چَین کی گھڑی ہے تُو
میری رات کا چراغ
میری نیند بھی ہے تُو
مَیں خزاں کی شام ہُوں
رُت بہار کی ہے تُو
دوستوں کے دَرمیاں
وجۂ دوستی ہے تُو
میری ساری عُمر میں
ایک ہی کمی ہے تُو
مَیں تَو وُہ نہِیں رہا
ہاں، مگر وُہی ہے تُو
ناصرؔ اِس دیار میں
کِتنا اَجنبی ہے تُو
شاعر : ناصرؔ کاظمی
(دِیوان)
No comments:
Post a Comment