غزوہ ہند کی شرائط:
1: غزوہ ہند علامت کبریٰ ہے کیونکہ یہی فاتح فوج ایلیا یعنی القدس جائیگی تو بعد میں حضرت عیسیؑ کی فوج سے مل جائیگی۔ قرآن پاک میں فرما دیا گیا ہے کہ ’’بے شک عیسیٰؑ قیامت کی نشانی ہیں۔ (سورۃ زخرف آیت :61) سو اس سے ثابت ہوا کہ غزوہ ہند علامات کبریٰ ہے یعنی قرب قیامت کی نشانی ہے۔ حدیث مبارکہ : نبی کریمؐ کی حدیث ہے کہ ’’خراسان سے سیاہ جھنڈے نکلیں گے انہیں کوئی شکست نہیں دے سکے گا مگر یہ کہ وہ ایلیا (یعنی القدس) میں نصب ہونگے اللہ تعالیٰ ان کیلئے ایک ہی رات میں معاملات کو درست کر دیگا۔ البدایہ والنہایہ میں ابن کثیرؒ اس حدیث کو روایت کرتے ہیں۔اس کا مطلب ہے کہ آقا دو جہاںؐ کی بشارت کی تکمیل ہونا ابھی باقی ہے۔ غزوہ ہند دراصل آخر الزمان میں بین الاقوامی جنگوں کے سلسلے میں آغاز ہے جن عالمی جنگوں کے سلسلے کا ذکر قرآن مجید میں ہے اور کچھ کا ذکر ہم اوپر کر آئے ہیں۔غزوہ ہند کی ایک اہم شرط یہ بھی ہے کہ اس غزوہ کی تکمیل حضرت امام مہدیؑ کے ہاتھوں سے ہو گی۔ اس جنگ کو غزوہ کہنے کی وجہ ہی یہ ہے کہ حضور نبی پاکؐ اس جنگ میں حضرت امام مہدیؑ اور امت کی روحانی رہنمائی فرمائیں گے۔
2: غزوہ ہند کی بڑی شرط یہ بھی ہے‘ حدیث مبارکہ کے مطابق اس جنگ میں چین بھی شامل ہو جائے گا۔
(التذکرہ صفحہ648): ’’ سندھ کی خرابی ہند سے اور ہند کی چین سے ‘‘… حضرت امام قرطبی حضرت حذیفہ بن یمانؓ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہؐ نے فرمایا: ’’اور سندھ کی خرابی ہند سے ہے اور ہند کی خرابی چین سے ہے‘‘ اسے ذکر کیا ہے ابو الفرج جوزی نے اپنی کتاب ’’روضۃ المشتاق و الطریق ابی الملک الخلاق‘‘ اس روایت کو امام بن کثیر نے بھی روایت کیا ہے۔ (النہایہ فی الفتن والا ملاحم صفحہ : 57) اس روایت کو امام ابو عمر و دانی نے بھی اپنی کتاب میں روایت کیا ہے۔ (السنن الواردۃ فی الفتن: جلد 2‘ صفحہ 36)
3: اس غزوہ کی سب سے اہم شرط یہ ہے کہ تمام عالم کفر متحد ہو جا ئے گا‘ اسلام اور اہل اسلام کو ختم کرنے کیلئے اسی لئے حضور نبی پاکؐ کا فرمان ہے کہ جو بھی اس جنگ مٰں شامل ہو گا وہ جنتی ہے۔4: حضور نبی پاکؐ نے غزوہ بدر کے بعد قیامت تک کسی جنگ کی وہ فضیلت بیان نہیں کی جو آپؐ نے اس جنگ کی فضیلت بیان کی ہے۔ رسول اللہؐ نے فرمایا: ’’افضل الشہد اشہدائے بدر ہیں یا شہدائے غزوہ ہند‘‘
5: : جو فوج غزوہ ہند لڑے گی اللہ انکے گناہ معاف کر دے گا (اور یہ غزوہ ہند پاک فوج اس وقت لڑ رہی ہے۔) یہ فوج بھی جنتی ہے‘ اس کا امیر بھی جنتی ہے۔
غزوہ ہند کی خوشخبریاں جو احادیث مبارکہ میں وارد ہوئی ہیں۔ اسی وجہ سے صحابہ کرامؓ اس غزوہ میں شامل ہونے کی خواہش اور تڑپ رکھتے تھے۔ (یہی وجہ ہے تاریخ اسلام میں صحابہ کرام سے لے کر بڑی بڑی جلیل القدر ہستیوں نے ہند کی طرف ہجرت کی تا کہ وہ اس غزوہ کو پا سکیں اور یہی وجہ ہے حضور نبی پاکؐ نے فرمایا مجھے ہند کی طرف سے خوشبو آتی ہے۔) ایک دوسری حدیث میں یوں فرمایا… میں عرب میں سے ہوں مگر عرب مجھ میں سے نہیں ‘ میں ہند سے نہیں مگر ہند مجھ میں ہے۔
حضرت ثوبانؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا ’’میری امت میں سے دو گروہ ایسے ہیں جن کو اللہ نے (جہنم کی) آگ سے محفوظ فرما دیا ہے‘ ایک وہ گروہ جو ہند پر حملہ کرے گا اور دوسرا وہ گروہ جو حضرت عیسیٰ بن مریمؑ کے ساتھ ہو گا۔ (التاریخ الکبیر: رقم الحدیث: 1743)
حضرت ابوہریرہؓ نے کہا: اگر میں نے غزوہ پایا تو میں اپنا نیا مال اور اپنے آباو اجداد سے میراث میں ملا ہوا مال بیچ دوں گا اور اس جنگ میں شریک ہوں گا۔ پس جب اللہ ہمیں فتح عطاء فرمائے گا اور ہم واپس لوٹیں گے تو میں (آگ سے) آزاد ابوہریرہ ہوں گا۔ جب وہ لشکر شام آئے گا تو اس میں حضرت عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کو پائے گا۔ میں ضرور اس بات کو حرص کروں گا کہ ان سے قریب ہوں اور انکو خبر دوں کہ اے اللہ کے رسول میں نے آپکی صحبت اختیار کی ہے۔ کہا: رسول اللہ مسکرا دیئے پھر فرمایا: دور ہوا دور ہوا۔
حضرت نبی کریمؐ سے مروی ہے کہ فرمایا: ’’ایک قوم میری امت میں سے ہند پر حملہ کریگی اللہ اس کو فتح عطا فرمائے گا یہاں تک کہ وہ ہند کے بادشاہوں کو زنجیروں میں جکڑ کر لائیں گے پس اللہ انکے گناہوں کی مغفرت فرمائے گا پھر وہ لوٹیں گے شام کی طرف تو عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام کو شام میں پائیں گے۔‘‘
حدیث: حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ ایک دن رسول اللہؐ نے غزوہ ہند کا ذکر فرمایا۔ آپؐ نے ارشاد فرمایا: ’’ایک لشکر رتمہارے لئے ضرور ہند پر حملہ کریگا۔ اللہ تعالیٰ ان کو فتح عطا فرمائے گا۔ یہاں تک کہ وہ ہند کے بادشاہوں کو زنجیروں میں جکڑ کر لائیں گے۔ اللہ تعالیٰ ان کے گناہوں کو معاف فرمائے گا۔ جب وہ واپس لوٹیں گے جب ان کو لوٹنا ہو گا تو وہ عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کو شام میں پائیں گے۔ حضرت ابوہریرہؓ نے فرمایا: پس اگر میں نے غزوہ پایا تو میں اپنا نیا اور آباؤ اجداد سے میراث میں ملا ہوا مال بیچ دوں گا اور اس غزوہ میں شریک ہوں گا۔ پس جب اللہ ہمیں فتح عطا فرمائے گا تو ہم واپس لوٹیں گے تو میں (آگ سے) آزاد ابوہریرہ ہوں گا۔ وہ لشکر شام آئے گا تو مسیح بن مریمؑ سے ملاقات کرے گا۔ میں ضرور اس بات کی حرص رکھوں گا کہ ان سے قریب ہوں پھر انہیں خبر دوں کہ میں نے اللہ کے رسولؐ آپ کی صحبت اختیار کی ہے۔ کہا: رسول اللہ مسکرا دیئے اور فرمایا: ’’بہت محال‘ بہت محال‘ بہت محال ہے۔
No comments:
Post a Comment